ہفتہ, مارچ 30, 2019

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پاکستان سے ایران برستہ تفتان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



راقم کو ستمبر 2018 میں اسلام آباد سے تہران ماحولیات سے متعلق ایک تعلیمی کانفرنس میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس سفر کے لیے ویزے کے حصول میں اسلام آباد میں موجود ایران کے سفارت خانے نے  خاطر خواہ تعاون کیا جس کی وجہ سے ویزے کا حصول ایک دن میں ممکن ہو سکا۔ اسلام آباد سے کوئٹہ جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا نظام کچھ بہتر ہے مگر جگہ جگہ سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا کام بھی جاری تھا جس کی وجہ سے سفر میں دشواری پیش آتی ہے،  البتہ کوئٹہ سے تفتان کی سڑکیں قدرے زیادہ بہتر ہیں مگر ٹریفک کا رش نسبتاً کم ہوتا ہے۔  تفتان صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ یہ شہر پاکستان اور ایران کی سرحد پر واقع ہے۔  سرحد کی دوسری طرف ایران کا قصبہ میرجاوہ ہے جہاں سے ایران کا شہر زاہدان تقریباً آدھے  یا پونےگھنٹے کے دوری پر واقع ہے۔ زاہدان شہر ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں واقع ہے.  ایران کے صوبہ بلوچستان و سیستان کی اکثریت بلوچوں پر مشتمل ہے۔ یہاں پر بس اڈہ، ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ساتھ ایک ہوائی اڈہ بھی ہے جس سے ایران کے محتلف شہروں کے لے لیے سفری سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ ایران میں ہوائی جہاز کے ٹکٹ ارزان نرح پر دستیاب ہیں. تفتان کے لوگوں کا زیادہ تر روزگار اسی بارڈر سے منسلک ہے۔  یہاں ایک چھوٹا سا بازار بھی ہے جس میں آپ کو زیادہ تر اشیاء ایران سے برآمد شدہ نظر آئیں گی۔ یہاں کے  اکثر لوگ ایرانی تیل استعمال کرتے ہیں اور اس کا کاروبار سے بھی منسلک ہیں۔  ایران کی کرنسی کا نام تومان ہے امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی کرنسی کی قدر بہت گر چکی ہے۔ ۔ تفتان میں آپ کو جگہ جگہ تومان  کے منی چینجر نظر آئیں گے۔  ۔ تفتان بارڈر پر امیگریشن اور کسٹم حکام نا مساعد حالات میں اور وسائل کی کمی کے باوجود بھی  تن دہی سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ حکومت  کے سیکیورٹی سے متعلق محتلف اقدامات اور  بہتر امیگریشن کی وجہ سے ایران کا سفر کرنے والوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر وزارت داخلہ کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ تافتان بارڈر سے ایران زیارات پر جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے۔   پاکستان کی طرف سے جیسے ہی ایران کے علاقے میں داخل ہوں تو وہاں پر آپ کو جگہ جگہ سرسبز باغات اور زمین کے چھوٹے چھوٹے سرسبزوشاداب ٹکڑے نظر آتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی طرف کسی قسم کے درخت باغات یا سبزہ آپ کو نظر نہیں آئے گا حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ایک ہی طرح کی زمین آب و ہوا ہونے کے باوجود سرحد کے اس پار آپ کو جگہ جگہ اس طرح کی ہریالی نظر آئے گی۔ ایران میں پٹرولیم کی مصنوعات کے نرح بہت کم ہیں جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں واضح کمی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرپٹ سیاست دانوں کی پکڑ کیوں مشکل ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ عرصہ پہلے میں ایک انگریزی فلم دیکھ رہا تھا۔ اس میں ایک آدمی بہت دلچسپ بات کہتا ہے کہ اگر آپ کے پاس بہترین وکیل، بہترین اکاؤنٹنٹ اور بہترین پادری(یا مُلّا) ہوں تو دنیا میں کوئی بھی آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ 

میں اکثر وبیشتر دیکھتا ہوں کہ لوگ اس بات کا رونا  روتے ہیں کہ کرپٹ سیاست دانوں کو جیل میں عارضی بند کرنے کے بعد دوبارہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کیلئے  حکومت اور عدالتوں کو الزام دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے لوگ ہر مسئلے کو انتہائی سادہ نظر سے دیکھتے ہیں اور ہر مسئلے کا ایک سادہ اور آسان فہم حل چاہتے ہیں۔ ان کو ہر کہانی میں ایک عدد ہیرو اور ایک ولن چاہئے ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے دنیاوی معاملات اس قدر آسان نہیں ہوتے ہیں۔ کسی بھی ایک شعبے میں کام  والا دوسرے شعبے  کے معاملات آسانی سے نہیں سمجھ سکتا کیوں کہ ہر ایک شعبہ  کی اپنی اپنی پیچیدگیاں ہوتی ہیں، اور انسان ایک خاص حد تک ہی ان پیچیدگیوں کو سمجھ سکتا ہے۔

جیل سے رہا ہونے والے سیاست دانوں کی طرف آتے ہیں اگر آپ غور سے دیکھیں تو ایسے سیاست دانوں کو بہترین وکیلوں کی خدمات حاصل ہوتی ہیں۔ بہترین  وکیلوں کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہیں جس کی  ایک وجہ یہ ہے کہ وہ وکالت ، عدالت، اور پولیس کے شعبوں میں بہت ماہر ہوتے ہیں اور ان شعبوں میں ان کو طرح طرح کی خامیاں اور شارٹ کٹ معلوم ہوتے ہیں۔ ان وکیلوں کو ہر معاملے کو الجھانے کے ہزاروں طریقے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان وکیلوں کے ساتھ بہت بڑی ٹیمیں ہوتی ہیں جو کہ ان کیلئے مختلف عدالتی فیصلے ڈھونڈھتے ہیں اور ان کو عدالت میں دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر وہ وکیل اپنے گاہک یا کلائنٹ یا موکل کو رہا کرا دیتے ہیں تو ان کو بہت بڑے پیسے میلتے ہیں اور مستقبل میں اور بھی بڑے تگڑے گاہک آتے ہیں۔ 

ان گندھے سیاستدانوں کے معاملے کو ایک اور نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک مفکر کہہ رہا تھا کہ بلّی اور چوہے کے مقابلے میں اکثر چوہے کی جیت ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چوہا بہت زیادہ جذبات میں ہوتا ہے کیونکہ اس کو جانی نقصان کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس میں اس کی جان چلی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف  بلّی زیادہ پروا نہیں کرتی کیونکہ اگر چوہا ہاتھ آئے تو تھوڑی سے عیاشی ہوجاتی ہے اور اگر ناکامی ہو تو کوئی خاص بات نہیں۔ 

کچھ اس طرح کا معاملہ ان ساستدانوں کا بھی ہے۔ اگر گندے سیاستدان صحیح طرح سے پکڑے گئے تو ان کی زندگی اور مستقبل تباہ ہوسکتی ہے۔ اس لئے ساستدان خود کو بچانے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر سرکاری وکیل کیس جیت جاتا ہے تو اس کی تنخواہ میں کچھ خاص اضافہ نہیں ہوتا جبکہ ناکامی کی صورت میں بھی اس کو اپنی تنخواہ باقاعدگی سے ملے گی۔

ان باتوں کا  ہرگز مقصد یہ نہیں ہے کہ ان کرپٹ سیاستدانوں کو کچھ نہیں کہا جاسکتا اور حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ ان باتوں کا مقصد یہ ہے کہ معاملات کی پیچیدگیوں کا تفصیل اور باریک بینی سے جائزہ لینا   ہوتا ہیں۔ ان کرپٹ سیاستدانوں کو سزا دینے کیلئے بہت سخت  محنت کی  ضرورت ہے۔ 

"If wishes were horses, beggars would ride" 

 

منگل, مارچ 26, 2019

جنگلات، ماحولیات اور ہماری ترجیحات۔

( اشاعت: 26th March 2019   روزنامہ آئین پشاور)    پچھلے دنوں جنگلات کے حوالے سے ایک خبر نظر سے گزری جس میں وزیراعظم عمران خان کے ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیاتھا کہ خیبرپختونخوا کے جنگلات کے رقبے میں 4 فیصد تک اضا فہ ہوا ہے جو کہ ایک خوش آئند امر ہے،خاص طور پر پاکستان جیسے ملک کے لیے جہاں دنیا کے بعض دیگر ممالک کی طرح ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات درپیش ہوں۔ پاکستان کو بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجزکا سامنا ہے جن میں سے ایک ماحولیاتی تبدیلی بھی ہے۔ حکومتوں کی ترجیحات کا تعین کرنے میں عوام کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، حکومت کی ترجیحات میں بالعموم وہی منصوبے شامل ہوتے ہیں جن کی تکمیل سے عوام میں ان کی مقبولیت اور ووٹ بینک میں بھی اضافے کے امکانات روشن ہوں۔ اکثر حکومتیں ایسے منصوبوں کے اجراء سے اجتناب کرتی ہیں جن کے اثرات دور رس ہوں اور آنے والے الیکشن میں ان کی بدولت خاطر خواہ فوائدبھی حاصل نہ ہوپائیں۔ مگر پاکستان کی موجود ہ قیادت اور خاص طور پر عمران خان کو اس بات کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انھوں نے ہنگامی بنیادوں پر اس طرف توجہ دیتے ہوئے جنگلات کے تحفظ اور اضافے کے حوالے سے خیبر پختونخوا سے اس کار خیر کا آغاز کرتے ہوئے ملک بھر میں اس ضمن میں جامع منصوبہ بندی کے تحت ٹھوس اقدامات کیے ہیں جن کے ثمرات بتدریج ظاہر ہورہے ہیں۔ جنگلات کے فوائد اور ضروریات پر تو بہت کچھ رقم کیا جا سکتا ہے مگر محتصر یہ کہ انسان اپنی ذات کی بقاء کے لیے ان جنگلات پر انحصار کرتاہے جن کو وہ تیزی سے ختم کر نے کے درپے ہے،جن کی اہمیت سے انکار نا ممکن ہے۔ دنیا میں ہر سال 21 مارچ کو یوم جنگلات منایا جاتا ہے تاکہ ان کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا جا سکے مگر بد قسمتی سے ہمارے وطن عزیز میں اس دن کوکچھ زیادہ گرم جوشی سے نہیں منایا گیا جس کی ایک وجہ لوگوں میں ماحول کے تحفظ کے حوالے سے شعورو آگہی کافقدان بڑھتا گیا۔ میری ذاتی رائے میں ماحولیات اور جنگلات کے حوالے سے آگاہی میں علماء اور اکابرین کا کردار بانتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں زراعت سے وابستہ کاشتکاروں تک ان کی رسائی آسان ہے اور یہ لوگ ان کی باتوں کو توجہ سے سنتے اور اہمیت بھی دیتے ہیں۔اسلام میں بھی جنگلات اور غیر ضروری طور پر درختوں کی کٹائی سے منع کیاگیا ہے، حتیٰ کہ جنگ وجدل کے دوران بھی درختوں کی کٹائی کی ممانعت ہے۔ اگر موجودہ حکومت کی ترجیحات اور پالیسیوں کو غیر جانبدارانہ طور پر دیکھا جائے تو اس مسلمہ حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جنگلات میں اضافہ اور ماحول کا تحفظ ان کی ترجیحات میں سرفہرست ہیں اونہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ان کوششوں کوکافی سراہا گیا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت ایک ارب درخت لگانے کی مہم کے اثرات اب واضح طور پر نظر آنے لگے ہیں اور ایک سال میں ہی اس منصوبے کی بدولت خیبر پختونخوا کے جنگلات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جس سے یقیناً ماحول اور جنگلی حیات پر اچھے اثرات مرتب ہونگے۔ پاکستان میں ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر World Wild Fund for Nature کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بھی اس منصوبے کے حوالے سے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ''اس منصوبے کی حقیقی کامیابی حیرت انگیز ہے۔ یہ کامیابی محض درخت لگانے تک نہیں بلکہ رویوں میں تبدیلی کے حوالے سے بھی ہے'' اب وفاقی حکومت کا دس ارب درخت لگانے کا منصوبہ بھی اسی سلسلے کی اگلی کڑی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا ہے کہ شجر کاری مہم کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا ہے، شجر کاری مہم تمام شہروں میں شروع کررہے ہیں، پورے پاکستان میں 10 ارب درخت لگانے کا ہدف ہے۔ یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ حکومتی سطح پر ماحولیات کے حوالے سے محتلف قسم کے سنجیدہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ اگر ہمارے ملک میں اسی طرح جنگلات کے تحفظ اور اضافے کے حوالے سے پالیسیوں ں کا تسلسل قائم رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے ملک کے جنگلات معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچاؤ کیلئے بھی مفید ثابت ہونگے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں جاری جنگلات میں اضافے کے محتلف منصوبوں کو ملک گیر سطح پر حکومت، عوام الناس اور علماء کی بھرپور شرکت سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے تاکہ مملکت خداداد کو سرسبزوشاداب کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔ وسائل کا شکوہ کرنے کے بجائے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر دنیا کو درپیش ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لئے اپنے حصے کی شمع جلا نی ہوگی۔ بقول احمد فراز۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
...................................................................
http://dailyaeen.com.pk/uploads/newspaper/Newspaper_peshawar_editorial4_2019-03-26_4.JPG

ہفتہ, مارچ 23, 2019

ہم اور ہماری سیاسی آزادی ( Originally published in Mutabadil Ayeena Blog on 22 February 2018 http://mutabadil.tv/98)


کسی بھی جمہوری معاشرےمیں سیاسی آزادی بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ جس معاشرے میں جمہوری اقدار کمزور ہو جاتی ہیں، وہاں پر سیاسی آزادی کو اپنے مزموم عزائم کے لیے منفی انداز میں پیش کیاجاتا ہے۔ مثلاٰ اگرکوئی فرد کسی حکومتی پالیسی پر تنقید کرے تو اُسے غدار اور ملک دُشمن کا لقب دے دیا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں سیاسی آزادی اور غداری جیسے تصورات میں فرق سمجھنا بہت ضروری ہے، خاص کر اُس معاشرے میں جہاں کافر، غدار اور ایجنٹ جیسے فتوے لگانا کوئی مشکل کام نہ ہو۔ شاید اسی لیے احمد فراز نے کہا تھا۔

پھر وہی خوف کی دیوار، تذبذب کی فضا
پھر ہوئیں عام وہی اہلِ ریا کی باتیں
نعرۂ حُبِ  وطن مالِ تجارت کی طرح
جنسِ ارزاں کی طرح دینِ خدا کی باتیں

جب کسی معاشرے میں ایک خاص طبقہ اپنے مزموم عزائم کے لیے لوگوں میں سیاسی شعُور کو ایک خاص سمت میں ڈیکٹیٹ کرتا ہے اور  جہاں اُن کے اندر اُٹھنے والے بنیادی سوالوں کو دبایا جاتاہے، تو ایسا معاشرہ ذہنی اور شعوری طور پر بانجھ پن کا شکا رہو جاتاہے۔ اور جب کوئی معاشرہ ذہنی پسماندگی کا شکار ہوتاہے تو پھر وہاں پر ارسطو ، افلاطون اور فرابی جیسے فلاسفرنہیں بلکے صرف شاہ دولا کے چوہے ہی جنم لیتے ہیں۔
آج ہمارے معاشرےکی حالت بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔آج بھی ہمارے معاشرے میں لوگوں کی سیاسی آزادی کودبایا جاتاہے۔ اُن کے جائزحقوق کے لیئے بولنے والوں کوڈرایا اور دھمکایاجاتاہے۔ وہ میڈیا جسے لوگوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانا تھا آج اُسے ریٹنگ کی دوڑ سے فرصت نہیں ہے۔ ہمارا میڈیا دو گروپوں میں تقسیم ہوکر ایک نوازشات ( ن لیگ) دوسرا عمرانیات ( عمران لیگ )کی کوریج میں مصروف ہے۔ آج ہمارے ملک کے محتلف علاقوں میں لوگ اپنے بنیادی سیاسی اور انسانی حقوق کے لیئے مظاہرے کررہے ہیں اور چیخ چیخ کر پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ آزادی ہے؟ اور مجال ہے جو عوامی نمائندوں، میڈیا اور با اثر افرادکو کو ان لوگوں کی ایک بھی سسکی سُنائی دے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کی یہ پارلئمنٹ انگریزوں کے بنائے ہوئے ایک قانون تک کو بھی نہ ختم کر سکی جس نے فاٹا کے عوام کا جنیا حرام کیا ہواہے ۔ا ب حکومت کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ ایک تو وہ ان لوگوں کی آواز کو دبادیں یا پھر وہ ان کے ساتھ مزاکرات کر کے ان کے مسائل کا  کوئی دیرپا سیاسی حل تلاش کریں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دھشت گردی جیسے لعنت کو ختم کرنے کے لیئے حکومت کو غیرمعمولی اقدامات کرنے چاہییں۔ مگر ان غیر معمولی اقدامات کی آڑ میں لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کو سلب نہ کیا جائے۔لوگوں کو ان کے سیاسی حقوق سے محروم نہ کیا جائے۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے صرف ہوا، پانی اور خوراک کی ہی ضرورت نہیں ہوتی بلکے زندہ رہنے کے لیے انسان کو اور بھی بہت کچھ درکار ہوتا ہے۔ آج کا انسان صرف کسی حد تک پاپندیاں برداشت کر سکتا ہے اور  جب اُس کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہو گا تو وہ احمد ندیم قاسمی کی ایک نظم کی طرح بولنے لگے گا۔

زندگی کے جتنے دروازے ہیں، مجھ پر بند ہیں۔
دیکھنا، حدِنظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا جرم ہے۔
سوچنا ! اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے۔
آسماں در آسماں کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے۔ کیوں بھی کہنا جرم ہے،کیسےبھی کہنا جرم ہے۔ سانس لینے کی تو آزادی ہے مگر زندہ رہنے کےلئے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے اور اس کچھ اور کا بھی تزکرہ بھی جرم ہے۔

اے ! ہنرمندانِ آئین و سیاست، اے ! خداوندانِ ایوان و عقائد

زندگی کے نام پر بس اک عنایت چاہیے۔ مجھ کو اِن سارے جرائم کی اجازت چاہئیے۔

بدھ, مارچ 20, 2019

Iran Nuclear Conundrum and Middle East. ( Originally Published in DailyTimes Peshawar on 20 March 2019)

    The issue of Iran’s nuclear program and capability has involved the regional countries and Western powers in a controversy. Iran argues that using nuclear technology for the peaceful purpose its right, which cannot be denied. It claims that its nuclear programme is for the peaceful purpose and future energy requirements, which are depleting with the passage of time. However, International Atomic Energy Agency IAEA shows its concerns over dubious and suspicious nuclear activities. The United States intelligence reports also revealed that its programme is suspicious. United States, Israel and EU are also of the opinion that Tehran is moving towards the nuclear weapons but on the other hand the Tehran’s officials are constantly denying it.

Some of the Gulf states have the potential to developed their own nuclear weapon capability to balance the threat of a Nuclear-Iran. This will start a nuclear arms race in the region which will increase the chances of nuclear war. Similarly, Iranian is alleged of supporting non-state actors for achieving its objectives in the region can lead to a dangerous situation leading to crisis with a nuclear dimension. Iran is continuously working on improving its military strength based on a nuclear capability. The regional politics is also important in this regard, as there are several atomic powers like Pakistan, India, China, Russia and Israel. Iran has strong feelings that only the nuclear capabilities can secure its national integrity. Presence of the US and NATO troops in Afghanistan and the US’ military bases in the Gulf and Central Asia are posing a security challenge for Iran. The US is keen to implement its containment strategy to halt Iran’s nuclear quest. Other major powers are also trying to reach an understanding with Iran over the nuclear issue. The US and its allies are perceiving threats from non-state actors in Iraq, Syria and Afghanistan and accusing Iran for its military support to non-state actors. A nuclear-armed Iran can be a threat and will affect the US objectives in the region. Thus, the United States strategy of isolating Iran from the international community and stopping its nuclear program seems rational.

In response to Iranian nuclear issue, the United States has embarked on a series of economic and diplomatic sanctions on Iran. Moreover, the European Union and United Nations Security Council has also supported the strategy of isolation and sanctioning Iran. The United Nations and European Union has banned Iranian exports of oil and gas to strengthen the sanctions regime. This lead to further standoff between Iran and the west especially the USA. However, China, Russia and even some European states are reluctant over strict punitive economic sanctions.

Some Western experts believe that Iran is using delay-tactics through diplomacy and time-consuming negotiations. In these circumstances, Iran’s strategy to gain time is probably to push its nuclear program. These experts recommend strict measures from the non-proliferation regime which would probably compel Iran compliance with international obligations. To address Iranian reservations, it would probably help the international community to resolve the nuclear issue once for all. Iran views its uranium enrichment facilities are part of its civilian nuclear program but the west denies Iran’s claim. Although Iran’s nuclear energy program is under the umbrella of Nuclear Non-Proliferation Treaty but IAEA (International Atomic Energy Agency) has serious reservations that Iran found in non-compliance with its NPT safeguard agreements. As the situation has not improved, regional security seems under strain. A resolution though   diplomatic channel could addressed the Iran’s security interests as well as western concerns over Iran’s nuclear quest.

There are some assumptions about Iran nuclear programme. The first assumption on the Iranian rhetoric behavior is that Iran just wants to remained at the threshold of developing the nuclear weapons while not actually crossing the redline, which would keep its stakes high within the international community and enable Iran to remain in a strong bargaining position. The other group of experts conceives that Iran is actually worried about its security especially after having witnessed the fate of Afghanistan, Iraq, Libya and Syria and the only possibility to avoid such a fate is to have a nuclear deterrence. These experts also view the North Korean decision of withdrawing from the NPT and testing a nuclear device in the same context. The third group of experts, actually very less in number considered Iran nuclear program is solely meant for the power generation due to depleting oil and gas reserves in the Gulf region. The International Atomic Energy Agency relationship with Iran has remained very potholed. The Western influence on the international watch dog agency is well known thus its attitude towards Iran and Pakistan have been different from that of Israel and India. Although there was never a conclusive evidence of Iran actively pursuing a nuclear program for military purposes, yet punitive sanctions were imposed on Iran over the IAEA reports, which were allegedly prepared under the US and western pressures. The IAEA also remained successful in getting the additional protocol signed from Iran which although could not be got ratified due to the unexpected change of the Iranian government in 2005. However, Obama’s Administration has changed its policy towards Iran using a mix of sanctions and promised rewards. This US approach helped the IAEA to successfully negotiate an interim nuclear deal with Iran that is seen as a first step towards resolving the Iranian nuclear issue through peaceful means. The Overall impact of the Iranian nuclear weapon on the non-proliferation could be negative. However, the fears of a nuclear domino effect look less probable. The states which are not enjoying very cordial relations with Iran like Saudi Arabia, Qatar, and Bahrain, might rely more on the global powers like the US. The  nuclear program of Iran is facing a lot of challenges due to Iran strategic location which is disintegrated and volatile part of Middle East, where Israel, the strategic partner of the USA is already equipped with the nuclear weapons. The pressure on Iran is not only due to its nuclear activities, but also due to its the Middle East policies that stand in deep contradiction with those of the US. Factors such of the Iran’s support for proxies like Hamas and Hezbollah, opposition of Israel while the US presence around Iran in Afghanistan, Iraq and the Gulf, are some causes of strong concern for Iran. Iran’s nuclear program for military purpose is not acceptable to the US and its allies.  In addition to that US has the option to deploy weapons to its established strategy of extended deterrence. With this strategy, the US can limit the influence of Iran in the region. On the other hand, Russia and China can be important to help fight the proliferation of the nuclear weapons. However, the US collaboration with these states can increase pressure on Iran. Russia and China can play a role to prevent Iran from the nuclear weapons quest. However, Russia and China seem to have different perceptions of Iran’s nuclear programme. In case of any military strike against Iranian nuclear sites would turn into as an emerging threat to regional security. Iran will be ready for a robust response. Therefore, the use of force considered last option on the table for the Iranian nuclear issue. Failure of western diplomacy could eventually lead them to military option, which is threat to regional peace. The successful implantation of Iran nuclear deal, which is halt under Trump’s administration will bring positive changes in future; he proclaimed the possibilities of interaction between the USA and Iran for achieving common interest and goal.
Email:   smk.imperial@gmail.com

 

منگل, مارچ 12, 2019

عالمی سیاست اور ہماری سوچ




عالمی سیاست میں بظاہر تمام ریاستں برابر اور  حود محتار ہوتی ہیں۔ لیکن اس بات کو سمجھنا بہت


ضروری ہے کہ تمام ریاستں معاشی، سیاسی، دفاعی اورمعاشرتی طورپرایک طرح سے نہیں ہوتیں۔ عالمی سیاست میں ذاتی مفاد کسی بھی ریاست کے لیے سب سے بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔  عالمی سیاست میں مذھب، اخلاقیات، رشتے وغیرہ کی کوئی اھمیت نیہں ہوتی۔ ریاستوں کو تو عشق ہوتا ہے نہ ہی وہ کسی کے پیار میں مبتلا ہوتیں ہیں۔ عالمی ریاستیں جب ایک دوسرے سے کسی بھی قسم کی معاملات طے کرتے وقت اُس ریاست کی قد کاٹ کو اُس کی معاشی، سیاسی، دفاعی طاقت کو ملحوظ         رکھا جاتا ہے۔ مثلا اگرکسی بھی عالمی مسئلے پربحث کرناہویا اُس کا حل تلاش کرنا ہو تواُس میں بڑی طاقتوں اور اہم ممالک کو بُلایا جائے گا۔  اگر دُنیا کے کسی بھی حصےمیں کوئی بھی مسئلہ ہوتو بڑی طاقتیں ہی فصیلہ کرتی ہیں کہ اس مسئلے کا حل کیا ہو گا۔

اب اصل مسئلے کی طرف آتے ہیں۔ اول بات تو یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہماری عوام کی اکثریت امریکہ، روس ، یورپ کو اپنا دُشمن سمجھتے ہیں اور پھر ان دشمنوں کو مختلف عالمی معاملات میں اپیل اور گزارشات بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اور کچھ غیرت مند تو دھمکیاں تک دے رہے ہو تے ہیں۔ ہماری عوام کو عراق ،شام ، یمن وغیرہ کے مسئلوں سے بہت زیادہ دُکھ اور تکلیف ہوتی ہے اور وہ بھر پور انداز میں عالمی طاقتوں کی مزاحمت بھی کرتے ہیں اور کبھی کبھی عالمی طاقتوں سے اپیل بھی کرتےہیں کہ فوری اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ ہماری عوام کو شاید یہ پتہ نہیں کہ دُنیا اور عالمی  طاقتوں کو ہماری کوئی پروا نہں کرتی چاہے ہم اپنے پورے ملک کو آگ لگا دیں اور اُلٹا لٹک جائیں۔ جب برصعیرکے مسلما نوں نے برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ سلطنت عثمانیہ کو تقسیم نہ کیا جائے، تو برطانیہ نے اپنے مفاد کو مد نظر رکھ کر وہی کیا جواُس کی قومی مفاد میں تھا۔ ایک وقت تھا جب پاکستان امریکہ کا لاڈلہ ہوا کرتا تھا اور امریکہ اپنے سرد جنگ کے لیے پاکستان کی مدد لیتا تھا۔ اُس وقت امریکہ پاکستان کو محتلف قسم کی امداد دیتاتھا اور چھوٹی موٹی مستیاں بھی برداشت کر لیتا تھا۔ مگر سرد جنگ میں اپنا مفاد پُورا کرنے کے بعد امریکہ اپنے موجودہ مفادات کو مدنظر رکھتا ہے۔ اب پاکستان کی ہنرمندان آئین و سیاست اور غیور عوام کویہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ کھوکلے نعروں اور زندہ باد اور مردہ باد سے نہ تو ہم کسی بھی مظلوم قوم کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہی ہم ظالم کا ہاتھ روک سکتے ہیں۔ جب تک ہمارا قد کاٹ عالمی برادری میں بڑھ نہیں جاتا تب تک ہماری کوئی آواز نہیں سُنے گا۔ ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہو گا اور اپنی معاشی اور سیاسی قد کاٹ کو بڑھانا ہواگا۔ ہمیں قرضہ لینا بند کرنا ہو گا۔ ہم دُنیا کو تب ہی ڈیکٹیٹ کریں گے جب ہم دُنیا کو کچھ دینے کے قابل ہو سکیں گے۔ اپنی موجودہ صورت حال کو دیکھ کر مجھے انگریزی کا وہ محاورہ یاد آتا ہے۔

"beggars can't be choosers

عالمی یوم خواتین اور یکساں مواقع. ( اشاعت : روزنامہ آئین پشاور, 12 مارچ 2019۔)


دنیا کے بیشتر ممالک میں 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے. اس معاملے پر ہمارے معاشرے میں دو رائے پائی جاتی ہیں. ایک طرح کی رائے رکھنے والے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ عالمی یوم خواتین کو نہیں منانا چاہیئے، جبکہ دوسری رائے رکھنے والے لوگ وہ ہیں جو کہ اس دن کو بھرپور طرح سے منانے کے حق میں ہیں۔ اکثر انسان کی سوچ یا رائے کا غیر جانبدار ہونا تقریبا َ ناممکن ہے اسی لیے اکثر و بیشتر کسی بھی مسئلے پر آپ کو ایک سے زیادہ رائے رکھنے والے لوگ ملیں گے۔ کسی بھی جمہوری اور صحت مند معاشرے میں اختلاف رائے کا ہونا ایک عام سی بات ہے اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے ۔ جب بھی کسی تحریک میں ایسے لوگ شامل ہو جائیں جو اس کے بنیادی فلسفے اور مقاصد کو اراری یا غیر ارادی طور پر پس پشت ڈال کر غیر ضروری باتوں میں الجھ جاتے ہیں، تو تحریک کی ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔ کسی بھی تحریک یا جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں شامل افراد دانائی اور حکمت کے ساتھ اپنے مقاصد اور طریقہ کار کا تعین کرتے ہوئے ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت بڑھتے جائیں اور غیر ضروری چیزوں سے اجتناب کریں۔ شائد کچھ اسی طرح کا ماجرا 8 مارچ 2019 کی عالمی یوم خواتین مارچ کے ساتھ بھی ہوا۔میں اُ ن نعروں یا پلے کارڈ کی تفصیل میں تو نہیں جاناچاہتا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ اُن میں بھی کچھ غیرضروری مسائل کی طرف نشاندہی کی گئی جو کہ اس تحریک کا حصہ نہیں ہونا چاہیے تھیں۔
میں اس دن کے منانے یا نہ منانے سے بالاتر ہو کر آپ لوگوں کے سامنے ایک سادہ سا سوال رکھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہمارے معاشرے میں عورتوں کو مردوں کی طرح یکساں معاشرتی اقتصادی اور سیاسی حقوق حاصل ہیں؟ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں بہت کم ایسی خواتین ہونگی جن کو مردوں کے مساوی یکساں معاشرتی اور اقتصادی اور سیاسی حقوق حاصل ہوں گے۔ اگر ہم صرف قانون وراثت کو ہی اٹھا کے دیکھ لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ خواتین کی اکثریت کو شریعت اور قانون میں مقرر کردہ وراثتی حق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ میری کم فہم رائے کے مطابق عالمی یوم خواتین کو کچھ اس طرح سے منانا چاہیے کہ اگر کو ئی خواتین کے حقوق کے حوالے سے کچھ اچھا کام کر رہاہے ہیں تو اس کو پذیرائی ملنی چاہیئے اور اگر کسی جگہ کوئی کوتاہی برتی جا رہی ہے تو اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہیں اور ان عناصر اور عوامل کی نشاندہی ہونی چاہیے جن سے خواتین کے ساتھ کسی بھی طرح کا امتیازی سلوک برتا جا رہا ہوں۔ اکثر مغربی معاشرے میں لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ایک مذہبی یا قدامت پسند معاشرے میں عورتوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جن لوگوں نے ایران کا سفر کیا ہو اور ان کے معاشرے میں خواتین کے کردار کا مشاہدہ کیا ہو تو وہ آپ کو بہتر انداز میں بتا سکتے ہیں کہ ایران میں خواتین کی ایک اچھی خاصی تعداد آپ کو محتلف شعبوں میں کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے، جہاں ان کے لیے یکساں مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ تقریباً ہر شعبے میں آپ کو خواتین کی نمائندگی نظر آئے گی ۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ جس کا نام وومن بزنس اینڈ لاء ہے ، اس رپورٹ کے مطابق دنیا میں صرف نصف درجن ممالک ایسے ہیں جن میں خواتین کو مساوی قانونی اور اقتصادی حقوق حاصل ہیں بدقسمتی سے ان ممالک کی فہرست میں کوئی ایک بھی مسلم مملکت نہیں ہے۔خواتین ہماری آبادی کا تقریبا نصف ہیں۔ ان کے کردار اور حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا عہد حاضر میں کوئی بھی معاشرہ خواتین کی شمولیت کے بغیر کسی بھی میدان میں ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کرسکتا۔
(۔ساجد محمود خان ۔)

DA NAN SAWAL-40

  پروگرام : دا نن سوال / آج کا سوال ( نشر مکرر) موضوع : یوم پاکستان (پشتو زبان میں ) مہمان: پرنسپل / لیث محمد - ( محکمہ ابتدائی و ثانوی ...