ہفتہ, جولائی 13, 2019

ڈاکٹر کا نسحہ اور ڈاکٹر کا بل ( اشاعت: مکالمہ 12 جولائی 2019 ) https://www.mukaalma.com/72396/



ایک امریکی صحافی Earl Wilson کا قول ہے کہ آپ ڈاکٹر کی  لکھی ہوئی تحریر اور نسخے کو صحیح طریقے سے نہیں پڑھ سکتے ہیں مگر اس کی لکھی ہوئی دوائی کا بل واضح طور پر پڑھ سکتے ہیں۔ یہی معاملہ ہمارے معاشرے میں  ڈاکٹروں کا ہے جن کی کارکردگی کا تو کچھ خاص پتہ نہیں چلتا مگر ان کی ہڑتالوں اور مطالبات ہر وقت میڈیا کی زینت بنے ہوتے ہیں۔ اس ملک میں آپ کسی بھی شہر میں سروے کروا کر دیکھ لیں کہ عوام کے ساتھ ان ڈاکٹروں کا رویہ سرکاری ہسپتالوں اور نجی کلینک میں کیسا ہوتا ہے۔ کیا اس میں کھلا تضاد نہیں پایا جاتا ہے۔ کسی بھی حکومت کے لیے سرکاری ہسپتالوں سے اپنی عوام کو صحت کی مکمل سہولیات فراہم کرنا تقریباً ناممکن سی بات ہے۔ اس سلسلے میں نجی شعبے کے تعاون سے لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں سرکاری ہسپتالوں میں عوام الناس کے لئے صحت کی یکساں سہولیات فراہم نہیں کی جاتی ہیں مگر حکومت کی جانب سے کچھ ایسے اقدامات اور اصلاحات کی جاتی ہیں جس سے لوگوں کو قدرے بہتر خدمات حاصل ہوتی ہیں۔ کچھ ایسی اصلاحات خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے کی جارہی ہیں جو کہ صحت کے شعبے میں بہتری کا سبب بنے گی مگر بدقسمتی سے سے ان اصلاحات کی راہ میں حائل رکاوٹ صرف ڈاکٹر طبقہ ہے جن کے مطالبات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے منشور میں میں یہ بات شامل ہیں کہ عوام کو صحت  کی بہتر سہولیات فراہم کی جائیں گی اور جب ان اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آتا ہے  تو بدقسمتی سے ڈاکٹر حضرات نہ صرف ان اصلاحات کو کو ماننے سے انکار کر دیا بلکہ کہ آئے روز ہڑتال کرکے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ بھی کر تے رہے ہیں۔ تمام تر ہڑتالوں اور تاخیری حربوں کے باوجود خود حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا ہے ہے کہ وہ عوام کی بہتری کے لیے صحت کے شعبے میں اصلاحات لے کر آئیں گے جن کا عوام سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر حضرات بھی اپنی ضد اور انا دکھانے کے بعد مذاکرات کی میز پر تمام مسائل مذاکرات سے حل کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹروں کی طرف سے حکومتی اصلاحات کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈوں سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ جب بھی اصلاحات کی بات کی جاتی ہے تو ڈاکٹر حضرات محتلف حیلے بہانوں سے حکومت کے لیے مشکالات پیدا کرتے ہیں اور اصلاحات کو متنازع بناتے ہیں۔  ڈاکٹر حضرات صحت کے شعبے میں اصلاحات کے لیے تیار نہیں ہیں لہذا اس شعبے میں اصلاحات لانے کے لیے حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے ہونگے۔
اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں صحت کے شعبے سے منسلک افراد کو بچپن سے ہی صحت کے شعبے سے دلچسپی ہوتی ہے۔  آپ اگر کسی چھوٹے بچے سے پوچھیں کہ آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے تو اکثر بچوں کا جواب یہ ہو گا کہ یہ وہ ڈاکٹر بن کر غریبوں کی مدد کریں گے۔ مگر نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر یہی بچے بڑے ہو کر نہ تو وہ جذبہ رکھتے ہیں اور نہ ہی غریب دوست پالیسیوں کے لیے اپنی چھوٹے چھوٹے مفادات کی قربانی دینے کو تیار ہوتےہیں۔  یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ اکثر والدین بچوں کو بچپن سے ڈاکٹر بننے کی ترغیب تو دیتے ہیں مگر صحیح معنوں میں انسانیت کی خدمت کے لئے قربانی کا درس نہیں دیتے ہیں۔ شاید والدین کو ملک و قوم کے بیماروں اور مریضوں سے زیادہ فکر مال و دولت اور نام بنانے کی ہوتی ہے۔ بہت کم طلباء ایسے ہونگے جو انسانیت کے جذبے سے سرشار ہو کر ڈاکٹر بننے کے خواہش مند ہونگے۔ اس بات کا اندازہ ڈاکٹروں اور حکومت کے درمیان پائے جانے والے گزشتہ تناؤ سے لگایا جا سکتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثر ڈاکٹر حضرات نہ تو حکومتی اصلاحات ماننے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی اپنے آبائی علاقے میں اپنے ہی لوگوں کو خدمات پیش کرنے کو تیار ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ کل اگر ہمیں ان ڈاکٹر حضرات کی خدمت کسی جنگ زدہ علاقوں میں پڑ گئی تو یہ حضرات تب بھی ہڑتال کی کال دینگے اور بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر جنگ کے محاذ پر جانے سے انکار کر دیں گے۔

بدھ, جولائی 10, 2019

رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ اور حکومت خیبر پختونخواہ ( اشاعت: 10 جولائی 2019)۔https://www.mukaalma.com/72322

کسی بھی ریاست اور اس کے باشندوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت اس ریاست کے باشندے اپنا اختیارFree will کو ریاست کے سپرد کردیتے ہیں اور بدلے میں ایک بہتر اور پُرامن زندگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ریاست اور اس کے باشندوں کے تعلق اور نوعیت پر اکثر و بیشتر ما ہر سیاسیات اور عمرانیات میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے مگر اس بات میں قطعی دو رائے نہیں ہے کہ ایک مثالی ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے جس کا کام اپنے باشندوں کو ہر لحاظ سے بہتر زندگی فراہم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں ریاستی اداروں کی طرف سے وقتاً فوقتاً قانون سازی کی جاتی ہے تا کہ لوگوں کے مفادات کا تحفظ ہو سکے اور ان کا معیار زندگی بھی بلند کیا جا سکے۔

رائٹ ٹو انفارمشن کا قانون بھی اسی طرح کے قوانین میں ایک قانون ہے جس سے ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان فاصلہ کم کر کے انہیں ایک دوسرے کے قریب لاکرلوگوں کا معیار زندگی بلند کیا جا سکے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن ( Right to Information ) کا قانونی مطلب یہ ہے کہ ان معلومات تک رسائی کا حق جو کسی بھی سرکاری ادارے کے پاس ہو یا عام زبان میں اسے حکومتی معاملات سے متعلق معلومات تک رسائی کا حق بھی کہتے ہیں ۔ رائٹ ٹو انفارمیشن کو معلومات تک رسائی یا جاننے کا حق ہے یا معلومات کی آزادی سے بھی جانا جاتاہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1946 میں اپنی قرارداد نمبر (1)59 میں آزادی معلومات کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا ہے جسے بعد میں یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس UDHR 1948 کے آرٹیکل 19 میں بھی شامل کیا گیا ہے جس کے مطابق ہر شخص کے پاس اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے اور وہ کسی بھی قسم کی معلومات کو آزادانہ طور پر کسی بھی واسطے سے بھیج سکتا ہے۔ پاکستان کے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 19 بھی اظہار رائے کی ضمانت دیتا ہے۔
1923میں برطانیہ کے حکمرانوں نے برصغیر پاک وہند میں ”آفیشل سیکرٹ ایکٹ”کے نام سے ایک قانون بنایا تھا۔ اس قانون کے تحت شہریوں کو حکومتی معلومات سے محروم کرنے کیلئے ایک قانونی راستہ صاحب اقتدار کے ہاتھ میں تھمایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت ہمارے ملک کی بیوکریسی کئی برسو ں سے خود کو احتساب سے بالاتر سمجھ رہی تھی اور ان سے سوال کرنے کا حق کسی بھی شہری کو حاصل نہیں رہا ، تاہم وفاقی سطح پر پاکستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 19 میں شق A شامل کر کے معلومات تک رسائی کے حق کو ہر شہری کا بنیادی آئینی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ 2013میں جب پی ٹی آئی کی حکومت نے خیبر پختونخوا اسمبلی میں ایک ایسا قانون پیش کیا جس نے پہلی مرتبہ صوبے کے سرکاری اداروں کو صوبے کی عوام کے سامنے جواب دہ بنا دیا ہے۔
دنیا کے 120 سے زائد ممالک میں معلومات تک رسائی کے قوانین پہلے سے ہی موجود ہیں جس سےاحتساب کے عمل کو شفاف اور بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن کے حق کو قانون کے طور پر سب سے پہلے سویڈن نے 1976 میں متعارف کرایا تھا. کسی بھی جمہوری معاشرے میں احتساب کا عمل حکومت کو شفاف طریقے سے چلانے   اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ معلومات تک رسائی میں آسانی سے نہ صرف عوام اور حکومتی اداروں کے درمیان بہت سے مسائل کو آسانی سے حل کرنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ اس سے عوام کا حکومت پر اعتماد بھی بحال رہتا ہے اس سلسلے  میں حکومت خیبر پختونخواہ کا ایک نہایت احسن قدم خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 نے صوبے کی عوام کو مزید بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کیاہے جس سے وہ کسی بھی سرکاری ادارے سے معلومات یا ریکارڈ کو مروجہ قوانین کے تحت طلب کرسکتے ہیں۔
اگر اس قانون کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے ہے کہ یہ قانون ہر لحاظ سے ایک بہترین قانون ہے جس سے عوام مستفید ہو سکتے ہیں۔ اس قانون سے مستفید ہونےوالے ہر شہری کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس قانون کو سمجھ کر اپنی ضرورت کے مطابق اسے استعمال کریں۔ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت کسی بھی معلومات یا ریکارڈ کے لیے   درخواست لکھ کر   مطلوبہ پتے پر  بھیجی جاتی ہے۔ جبکہ معلومات حاصل کرنے کے لیے    اپنا درست پتہ جس پر معلومات درکار ہوں کو مطلوبہ پتہ پر درخواست بھیجی جاسکتی ہیں۔ یہاں پر یہ بتانا ضروری ہے کہ اس قانون کے تحت ایسی حساس معلومات کو استثناء حاصل ہے  جس  سے کسی بھی قسم کے نقصان کا اندیشہ ہو ،جیسے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے متعلق حساس معلومات، کسی کے معاشی معاملات، قانون سازی یا کوئی اور ایسی معلومات جن سے کسی قسم کے  انفرادی یا اجتماعی نقصان کا اندیشہ ہو۔ عوام کی طرف سے سے رائٹ ٹو انفارمیشن کے قانون کے صحیح استعمال سے نہ صرف اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے بلکہ سرکاری اداروں میں احتساب کے رجحان کو مزید فروغ دیا جا سکتا ہے۔

بدھ, جولائی 03, 2019

فنکار اور ایمانیات ( اشاعت : مکالمہ 3 جولائی 2019 )

ہم کسی انسان کے فن ، روزگار یا شوق سے کسی کے ایمان کا اندازہ نہیں لگا سکتے اور نہ ہی آج تک کوئی ایسی مشین یا آلہ ایجاد ہوا ہے جس سے کسی کے ایمان کو ماپا
جا سکے۔  ماہ رمضان سے کچھ دن پہلے پنجاب اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی تھی جس کے مطابق کوئی بھی فنکار رمضان ٹرانسمیشن میں حصہ نہیں لے سکتا کیونکہ پنجاب اسمبلی کے حیرت انگیز ایجاد کردہ فارمولے کے ذریعے انہوں نے یہ معلوم کر دیا ہے کہ فنکار انتہائی نچلے درجے کے مسلمان ہیں اور اس فارمولے کی روشنی میں انہوں نے قرارداد کو متفقہ طور پر منظور بھی کر لیا۔ اس منظور شدہ قرارداد میں رمضان ٹرانسمیشن کے حوالے سے فنکاروں کے رمضان پروگرام پر پابندی عائد کرنے کی سفارشات پیش کی گئی اور الیکٹرانک میڈیا کی نگرانی کرنے والے سرکاری ادارے ‘پیمرا کو پابند کیا  گیا  کہ وہ تمام ٹی وی چینلز کو پابند کرے کہ شوبِز میں کام کرنے والے لوگوں کو رمضان ٹرانسمیشن میں ہر گز شامل نہ کیا جائے۔اس قرارداد کا واضح طور پر یہی مطلب لیا جاسکتا ہے کہ فنکار رمضان المبارک کے مہینے میں اسلام پر کسی قسم کی گفتگو نہیں کر سکتے ۔
اب خدشہ یہ ہے کہ کہیں  ممبران اسمبلی اس فارمولے کا دائرہ کار مزید نہ بڑھادیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس فارمولے کے تحت وہ مختلف کھیلوں کے کھلاڑیوں کے ایمان کے درجات ماپ کر اور ان کو بھی نچلے درجے کا مسلمان نہ ڈکلیئر کردیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہماری اسمبلی میں اس طرح کی قانون سازی ہورہی ہے جیسے زمانہ جاہلیت میں لوگ ایک دوسرے پر سچے جھوٹے بہتان لگایا کرتے تھے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھا کر معاشرے سے جدا کرتے تھے۔ اس ملک کے سیاستدانوں نے اتنا بھی نہ سوچا کہ جب ملک میں اسمبلی جیسے فورم پر کسی کو گھٹیا سمجھاجائے گا تو وہ خود  اپنی اور عوام کی نظروں میں کس قدر گر جائے گا۔ میں اب اس کشمکش میں ہوں کہ کبھی تو فنکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے  انہیں صدارتی اعزازات سے نوازا جا تا ہے مگر کچھ دنوں کے بعد ان ہی  فنکاروں کو نچلے درجے کا مسلمان ہونے کا باقاعدہ سرٹیفیکیٹ دے دیا جاتاہے۔ جس پر واضح لکھا ہوا تھا کہ آپ اسلام کے بارے میں کوئی اچھی بات نہیں کر سکتے ہیں۔ میں اکثر یہ بات دہراتا ہوں کہ جب اس ملک میں فنکار کو گھٹیا اور کم درجے کا مسلمان تصور کیا جائے گا تو اس ملک میں فنکار کہاں سے پیدا ہوں گے ، کون اپنی زندگی فن کےلیے   وقف کرے گا۔
اب اگر دیکھا جائے تو باقاعدہ نومنتحب اسمبلی کے اراکین کو بھی اپنی رائے دینے سے روکنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ یہ تحریر میں نے اس وقت ادھوری چھوڑ دی تھی جب فنکاروں پر پابندی کی بات کی گئی تھی اور اس وقت بھی میرا یہی موقف تھا کہ مستقبل میں اس پابندی کا دائرہ کار مزید بڑھا کر  اور لوگوں پر   بھی پابندی عائد کی جائے گی اور آج ایسا ہی لگتا ہے کہ اس پابندی کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ اس بات سے مجھے جناب احمد فراز مرحوم کے چند اشعار یاد آرہے ہیں۔
تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو
ہم پالنہار ہیں پھولوں کے
ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں۔
https://www.mukaalma.com/71706/

DA NAN SAWAL-40

  پروگرام : دا نن سوال / آج کا سوال ( نشر مکرر) موضوع : یوم پاکستان (پشتو زبان میں ) مہمان: پرنسپل / لیث محمد - ( محکمہ ابتدائی و ثانوی ...