بدھ, ستمبر 16, 2020

DA NAN SAWAL SHOW-19

‏پروگرام : دا نن سوال / آج کا سوال

 موضوع :ایک ٹرانسجنڈر کی زندگی(پشتو ) 
مہمان: علیشاہ  
میزبان / پروڈیوسر : ساجد محمود خان
تاریخ : بدھ 16 ستمبر ، 2020
وقت :رات 10:00 بجے
#PakhtunkhwaRadioMardan
 FM 92.6MHz 
‎#Transgender
‎#TransRightsAreHumanRights

https://youtu.be/4Az-7iq5qew

جمعہ, اپریل 24, 2020

موضوع: تعلیم و تربیت

موضوع: تعلیم و تربیت
کوربه / پروڈیوسر : ساجد محمود خان
مېلمه: اکبر هوتي
(23-04-2020)د زيارت ورځ ماسخوتن 10 بجې
-----------_______------------______
پښتونخوا رېډيو مردان 92.6MHz

☎️📞: 0937-9230611


https://youtu.be/yDAITDPZjOE

بدھ, اپریل 22, 2020

سازشیں جب شمار کرنا ‏

پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ دماغ ہوتوسوچاں ای سوچاں،نہ ہوتوموجاں ای موجاں، جس کا مطلب ہے کہ اگر آپ کے پاس دماغ ہو تو سوچیں ہی سوچیں ہونگی اور اگر نہ ہو تو مزے ہی مزے ہیں۔  اسی طرح میرے خیال میں اگر کسی کے پاس مناسب علم نہ ہو تو پھر ہر طرف سازشیں ہی سازشیں نظر آئیں گی۔ ہر انسان میں اپنےاردگرد کے ماحول کو سمجھنے اور اس کے بارے میں سوچنے کی جستجو اور تجسس ہوتی ہے۔  اسی تجسس کی پیاس بجھانے کے لئے وہ محتلف لوگوں کی وضاحتوں اور نظریات کو سنتا ہے اور صرف اس سادہ سی وضاحت کو ہی درست تسلیم کرتا ہے جو کہ اس کی فہم و فراست کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور جو آسانی سے سمجھ میں اجاتی ہے۔ مثلآ کسی چھوٹے بچے کو سمجھانے کے لیے ہم ایک نہایت ہی سادہ وضاحت پیش کرتے ہیں اور اگر وہی بات کسی نوجوان کو سمجھانے کے لئے تفصیل سے پیش کی جاتی ہے۔ 

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے نوجوان اور بزرگ سائنس کے پیچیدہ سے پیچیدہ عوامل اور محرکات کو مناسب طریقے سے سمجھتے نہیں ہیں لیکن ان کو بڑی آسانی اور اعتماد سے پیش کرتے ہوئے عجیب وغریب قسم کے سازشی نظریات سے ان کا تعلق بنا دیتے ہیں ۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سی اہم اور سنجیدہ باتوں کو بغیر تصدیق کے آگے بیان کرتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔  مجھے اچھی طرح یاد ہے ہے جب راقم اسلام آباد کی ایک سرکاری درسگاہ میں  اپنی ماسٹر ڈگری کے لیے زیر تعلیم تھا تو اس وقت کے ہمارے  ایک گورے پروفیسر صاحب جن کا تعلق کینیڈا سے تھا انہوں نے ہماری پوری کلاس کو ڈرون حملوں کے حوالے سے ایک اسائمنٹ لکھنے کے لئے کہا۔   جب وہ اسائنمنٹ تمام طلباء  نے جمع کرادی تو گورے پروفیسر صاحب ان تمام اسائمنٹس کو پڑھنے کے بعد کچھ یوں گویا ہوئے کہ دنیا کے کم و بیش ہر ملک  میں سازشی نظریات پائی جاتیں ہیں مگر مجھے تو حیرانگی ہوئی کہ ہر طالب علم کی ڈرون حملوں کے متعلق اپنے اپنے عجیب و غریب قسم کے سازشی نظریات ہیں۔ ان نظریات کی روشنی میں ڈرون حملوں کے پیچھے یہودیوں کی سازش ہے، ڈرون حملے بھارت کی شرارت ہے، ڈرون حملے امریکہ کی طرف سے کیے جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔  یعنی کہ جتنی منہ اتنی باتیں کے مصادق جتنے طلباء اتنے ہی سازشی نظریات قلمبند کیے گئے تھے۔ ہمارے معمر گورے پروفیسر صاحب کی تو ہمت تھی کہ وہ تمام طلباء کی سازشی نظریات سے بھرپور اسائمنٹس پڑھ لیا کرتے تھے مگر ہمیں تو بنفس نفیس لوگوں سے ان کے غیر سنجیدہ اور بے ربط سازشی نظریات سے بھر پور خیالات زبردستی سننے پڑ جاتے ہیں۔ جن کو سن کر بیک وقت ہنسنا بھی آتا ہے اور رونا بھی آتا ہے۔ وہ بے ربط مگر ایک کمزور منطق سے مربوط سازشی نظریات فضول وقت گزارنے اور اپنی قوت برداشت بڑھانے کے لیے نہایت مفید ہیں۔

اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے یے تو بازار میں کئ دنوں سے کرونا وائرس کی وباء کے حوالے سے سینکڑوں سازشی نظریات گردش کر رہی ہیں۔  ان سازشی نظریات کے پھیلانے والوں میں اچھے خاصے سے پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے حصے کی شمع روشن کر رہے ہیں۔ اس مختصر سے کالم میں ممکن تو نہیں کہ کرونا وائرس سے متعلق ان سازشی نظریات کی کو فرداً فرداً تفصیل سے بیان کیا جائے مگر چند ایک سازشی نظریات بیان کرتا چلوں جو راقم کی سماعتوں کی نظر ہوئی ہیں۔ ان سازشی نظریات میں ایک نظریہ تو یہ پیش کیا جاتا ہے کہ یہ کرونا وائرس دنیا میں 5 جی ٹیکنالوجی کو متعارف کروانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔کچھ لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ کرونا وائرس کو دنیا میں موجودہ ورلڈ آرڈر کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ( ایسے لوگوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ ورلڈ آرڈر کیا ہے )۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ اس وائرس کے ذریعے مذہبی یا ثقافتی اطوار کو بدلنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کچھ۔ لوگ اسے روس کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ 

ہمیں تو اس لفظ سازش اور امریکہ سے اتنی محبت ہو گئی ہے ہے کہ اب ہمیں وطن عزیز میں میں آنے والی قدرتی آفات جیسے زلزلوں اور  سیلابوں میں بھی امریکہ کی سازشیں نظر آتی ہے ہمیں امریکہ کی امداد سے شدید محبت  اور امریکہ کی سازشوں سے شدید نفرت ھے ہے جس کا ذکر ہم وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔  اس محبت اور سازشوں کے جذباتی کھیل میں کھبی ہم پر امریکہ کی محبت تو کبھی اس کی سازش غالب آجاتی ہے۔ ہم ان سازشی نظریات کی محبت میں آتا آگے نکل گئے ہیں کہ کبھی کبھی ہم اپنی حکومت کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر ہمیں حق اور سچ کا بول بالا کرنا ہے تو ہمیں ان سازشی نظریات کی گنتی اور محبت ترک کرنی ہونگی اور اپنی حکومت اور اداروں پر اعتماد کرنا ہو گا ورنہ بس پھر وہی بات کہ 
"محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا"

http://www.dailypaighamat.com/4.html

بدھ, اپریل 15, 2020

......موسمیاتی تبدیلی کا مقدمہ تیسری دنیا میں......

            پشتو کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ ایک بندہ بستر مرگ پر بھوک سے مر رہا اور دوسرا شخص اس کے سراہنے گھی میں تلے ہوئے پراٹھے ڈھونڈ رہا ہے۔ عالمی سطح پر بہت سے مسائل اور ان کے حل کے لیے اقدامات پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک  بھوک سے مر رہے ہیں اور امیر ممالک ان کے پاس دیسی گھی میں تلے پراٹھے ڈھونڈ رہے ہیں۔  کچھ اسی طرح کی صورت حال غریب ممالک میں موسیمیاتی تبدیلیوں کی پالیسیوں  کی بھی ہے   جہاں لوگ بھوک  وافلاس کی زد میں ہیں اور امیر ممالک  یعنی ترقی یافتہ ممالک ان سے موسیمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھانے پر زور دے رہے ہیں۔ مگر ان غریب ممالک کی ترجیحات میں خوراک کی کمی کو پورا کرنا، اسلحے کی دوڑ میں شامل ہونا ، بنیادی انفرسٹرکچر بنانا  جیسی ضروریات شامل ہیں۔  اب یہ  لوگ اسلحہ چھوڑ کر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات   تیسری دنیاکی اکثر ممالک کو بہت سے عالمی مسائل کا سامنا ہےجن میں موسمیاتی تبدیلی نہایت اہمیت کا حامل ہے مگر ستم یہ  ہے کہ ان ترقی پذیر ممالک کوموسمیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والے مسائل کی شدت کا صیح طرح ادراک بھی نہیں ہے بدقسمتی یہ بھی ہے کہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک اس مسئلے کی اگاہی کے باوجود بھی اپنے حصے کی شمع جلانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر بھی زیادہ تر غریب ممالک ہونگے جس کا ذکر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔   موسمیاتی تبدیلیوں پرآگاہی سیمینارسے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب  کے  وزیرماحولیات  نے  بھی کہا تھا   کہ موسمیاتی تبدیلیاں اوران کے اثرات دہشت گردی کے بعد سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ مگر  عالمی سطح پر  ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے  اقدامات نا کافی ہیں۔
   یہاں یہ سوال  نہایت اہم ہے کہ ریاستیں اپنے وسائل صیح طرح استعمال کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے اپنے وسائل بروئے کار کیوں نہیں لاتیں  ہیں؟   اس سوال کا جواب  ترقی یافتہ   ریاستوں اور ترقی پذیر  ریاستوں میں موجود  ذمہ داران اپنی اپنی فہم و فراست کے مطابق دیتے ہیں۔ اگر دیکھا  جائے تو عام لوگوں میں   اس سلسے میں دو  متضاد  رائے پائی جاتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی صدیوں سے  ہونے والا ایک ایسا قدرتی عمل ہے جسے روکنے کے لیے انسان   بے بس اور لاچار ہے ۔  دوسری رائے رکھنے والے لوگوں میں ایسے سنجیدہ لوگ ہیں جن کی نظر میں ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے  لیے انسان خاطر خوا اقدامات کر سکتاہے کیونکہ  ماحولیاتی مسائل کاذمہ دار انسان خود ہے۔
یہاں یہ سوال نہایت اہم ہے کہ اگر  موسیمیاتی تبدیلی کا مسئلہ اتنا  ہی شدید اور گھمبیر ہے  تو ریاستیں  اپنے وسائل کا صیح استعمال کرنے ہوئے موسیمیاتی تبدیلیوں کے برے اثرات سے بچنے کے لیے  ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیوں نہں اٹھاتیں ؟  اس  سوال کا  ایک سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ   اس مسئلے پر ہر ریاست اپنے اپنے فہم وفراست  کے مطابق اقدامات اتھاتی ہے  ، مگر ایک بات بہت واضح ہے کہ جو ریاسیتں بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کی زد میں ہیں  وہ اس مسئلے کے لیے سنجیدہ ہیں  اور انھیں اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک ہے۔ سب سے پہلے تو  لوگ  موسیمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات  ماننے کو ہی تیار ہی  نہیں ہیں اور  عام طور پر بہت سے لوگوں  میں  ماحولیاتی تبدیلیوں پر دو رائے پائی جاتی ہیں۔  ایک رائے تو ان لوگوں کی ہے جن کے خیال میں  گلیشیئر کا تیزی سے پگھلنا ، درجہ حرارت میں اضافہ ، موسمی تغیرات وغیرہ صدیوں سے چلا آرہا ایک قدرتی عمل ہے اورانسانی کوششوں سے اس پر کوئی خاص  فرق نہیں پڑ سکتا ہے۔  دوسری  قسم کی رائے رکھنے والے لوگوں کے مطابق موسیمیاتی   تبدیلی انسان کی طرف سے دنیا  میں  غیر دانشمندانہ  عمل دخل کا نتجہ ہے۔  بخثیت اشرف المخلوقات یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ  انسان نے بیشتر مسائل بشمول عالمی امن کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں وہاں موسیمیاتی تبدیلیوں سے نمٹے  کے لیے مختلف آراء اور ترجیحات پائی جاتی ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ اس مسئلے پر اقدامات اٹھانے کے حوالے سے  نہ صرف سیاستدانوں بلکے پڑھے لکھے دانشواروں میں بھی ایک واضح اختلاف پایا جاتا ہے۔  عالمی سطح پر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے نہ صرف ترقی یا فیہ بلکے تیسری دنیا کے غریب ممالک کو بھی اپنی سوچ اور ترجیحات کو بدلنا ہو گا  وگرنہ ایک کرونا کے عالمی مسئلے  سے لڑتے لڑتے دوسرے  دوسرے عالمی مسائل سے مخاذ جنگ نہ کھل جائے۔ 
یہ ہُجومِ شہرِ ستمگراں نہ سُنے گا تیری صدا کبھی
 مری حسرتوں کو سُخن سُنا مری خواہشوں سے خطاب کر

http://www.dailypaighamat.com/4.html

DA NAN SAWAL 3

پیر, مارچ 02, 2020

۔پنجاب کا مقدمہ سب کےلئے۔http://www.dailypaighamat.com/2.html

سب سے پہلے تو میں معزرت خواہ ہوں کہ یہ تحریر مجھے 21 فروری یعنی عالمی یوم مادری زبان کے دن تحریر اور شائع کرنی چاہیے تھی مگر ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں۔ ایک اور اہم بات یہ کہ میں اپنی کم علمی اور خاص طور پر علم لسانیات پر کمزور گرفت  کی وجہ سے ایسے موضوعات پر  لکھنے سے پرہیز کرتا ہوں جس سے میری  کسی مثبت تحریر یا پیغام کو کسی بھی حوالے سے متنازع تحریر یا پیغام کا درجہ حاصل ہو جائے۔ ہم اکثر ان معاملات پر بہت زیادہ توجہ نہیں دیتے جو ہم پر بلا واسطہ طور پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے اثرات بہت عرصہ بعد رونما ہونے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سانحہ بنگال کے عوامل میں زبان ایک اہم مسئلہ تھا جس نے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے لوگوں میں دوریاں پیدا کی تھیں۔

جب کبھی بھی علاقائی زبانوں بالخصوص پنجابی زبان سے وفا کا تذکرہ ہو گا تو محمد حنیف رامے کی کتاب ( پنچاب کا مقدمہ ) کا پیش لفظ ہمیں اپنی مادری زبانوں خاص کر پنجابی زبان سے پنجاب کے باشندوں کی بے وفائی اور چشم پوشی کی یاد ضرور دلاتا رہے گا۔ محمد حنیف رامے صاحب 1930ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔  آپ سیاستدان، دانشور، خطاط ، مصور، صحافی اور ایک ہمہ گیر شخصیت کی حامل انسان تھے۔  حنیف رامے صاحب کی مشہور کتاب ’’ پنجاب کا مقدمہ ‘‘ ہے جبکہ ان کی دیگر تصانیف میں اسلام کی روحانی قدریں، موت نہیں زندگی ، باز آؤ اور زندہ رہو (اداریوں کا مجموعہ) ، دُبِ اکبر اور نظموں کا مجموعہ دن کا پھول کے نام شامل ہیں۔  آپ چوہدری تھے مگر اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح اپنے نام کے ساتھ چوہدری کے بجائے رامے کا لاحقہ اختیار کیا اور پھر یہی ان کا تخلص بھی ٹھہرا تھا۔  محمد حنیف رامے مرحوم نے ”پنجاب کا مقدمہ“ کے موضوع پر اپنی کتاب اردو میں لکھی اور اس کی توجیح یہ پیش کی کہ انہیں یہ کتاب اردو میں اس لئے بھی لکھنا پڑی کیونکہ پڑھے لکھے پنجابیوں نے پنجابی زبان کو چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے پیش لفظ میں مزید لکھا کہ وہ اس دور کے کروڑوں پنجابیوں کو نہ صرف پنجاب کی عظمت  کیلئے بلکے پورے پاکستان کے استحکام اور یکجہتی کیلئے بھی جگا رہے ہیں۔ ان کی کتاب میں انھوں نے  پنجاب کے لوگوں کو مضبوط پاکستان کی خاطر پنجابیت سے جڑے رہنے کا مشورہ دیا ہے۔  انھوں نے مضبوط پاکستان اور پنجابیت کو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ”میرا ایمان ہے کہ پنجاب نے پنجابیت اختیار نہ کی تو وہ پاکستان کو بھی لے ڈوبے گا"۔  میری ذاتی رائے میں جب تک ہمارے وطن عزیز میں علاقائی زبانیں اور تقافت فروغ نہیں پاتا تب تک پاکستان مستحکم اور مضبوط نہیں ہو سکتا ہے۔  حنیف رامے صاحب اہل پنجاب کو ان کی خاموشی پہ جھنجھوڑتے ہوئے اہل پنجاب سے یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر وہ پاکستان کی بقإ چاہتے ہیں تو نہ صرف اپنی پنجابیت اختیار کرے بلکہ پوری عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر صوبائی خودمختاری کی جنگ بھی لڑے۔ 
جو بات اور نقطہ میں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ  ہے کہ علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی سے اردو زبان اور استحکام پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس سے سے اردو زبان اور ملکی اتحاد کو مزید استحکام ملے گا ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر علاقے کی اپنی ایک محصوص ثقافت ہوتی ہے جو اس علاقے کی زبان سے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ بہت سے الفاظ اور محاورے اس محصوص ثقافت کی بدولت وجود میں آتے ہیں۔ ان ہی نئے وجود میں آنے والے الفاظ میں سے بہت سے الفاظ بعد میں دوسری زبانوں میں منتقل ہو جاتے ہیں ہے۔ اس طرح ایک مخصوص ثقافت کا اثر دوسری ثقافت اور اس کی زبان پر پڑتا ہے۔ اگر یہی الفاظ کے تبادلے رک جائیں تو پھر زبان کمزور یا پھر مردہ ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں بہت سی علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں جن کے الفاظ آپ کو بہت سی دوسری زبانوں خاص طور پر اردو زبان میں ضرور نظر آئیں گے۔ پاکستان میں بولی جانے والی علاقائی زبانوں میں سندھی، پنجابی، پشتو ، بلوچی، کشمیری، سرائیکی، ہندکو، براہوی، گجراتی اور بعض دوسری علاقائی زبانیں بھی شامل ہیں۔ علاقائی زبانوں کے سوچ افکار نہ صرف قومی زبان کے دائرہ کار کو وسعت دینے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں بلکہ علاقے کے افراد کو قومی زبان سے قریب لانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمیں علاقائی زبانوں کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا اور ان کی ترقی و ترویج کے لئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے ہونگے ورنہ تو ایک پنجاب کے مقدمے کے بجائے ہمیں بہت سے علاقائی زبانوں کے مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا۔ اخر میں حنیف رامے مرحوم کی بات کو کچھ اضافے کے ساتھ مزید آگے بڑھاتے ہوئے اتنا ضرور کہوں گا کہ مضبوط پاکستان اور علاقائی زبانوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور اگر پاکستانیوں نے اپنی علاقائی زبانوں سے محبت اختیار نہ کی تو وہ پاکستان کی یکجہتی کو بھی لے ڈوبیں گے۔

جمعرات, فروری 20, 2020

(ماہی پروری اور روزگار کے مواقع۔ اشاعت روزنامہ آئین پشاور۔ 16 اپریل 2019)



پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصد ڈگری کا حصول ہے جو کہ ایک نوکری کی تلاش میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ بہت کم نوجوان اس غرض سے تعلیم حاصل کرتے ہیں یا پھر ایسے تدریسی شعبوں کا انتخاب کرلیتے ہیں جن کی مدد سے وہ انٹرپنورشپ یا اپنے ذاتی کاروبار کا آغاز کرسکیں۔ ماہی پروری یا تجارتی بنیادوں پر تالابوں میں مچھلیاں پالنے کی صنعت کو اس وقت دنیا میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس مقصد کے لئے ناکارہ سیم زدہ اور کلر زدہ اراضی بھی استعمال میں لائی جاسکتی ہے۔ جس تیزی سے انسانوں کی خوراک کی ضروریات بڑ رہی ہیں اسی تناسب سے ہمیں اپنے وسائل اور ذرائع کو بھی بڑھانا ہو گا۔ ماہی گیری ایک ایسی صنعت ہے جس سے ہمیں پروٹین سے بھرپور غذا آسانی سے دستیاب ہو سکتی ہے۔ ماہی گیری اور آبی وسائل کا مناسب استعمال نہ صرف تحفظ خوراک کی ضما نت ہے بلکہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔آج کے جدیددور میں ناموزوں شکاری آلات اور جس بے دریغ طریقے سے سمندروں اور دریاؤں میں مچھلیوں کا شکار جاری ہے تویہ خدشہ خارج از امکان نہیں کہ عنقریب ہمیں اس قیمتی قدرتی غذائی نعمت کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 
پاکستان کا تقریبا 814 کلو میٹر کا علاقہ ساحل سمندر پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں ماہی گیری کے کثیروسائل موجود ہیں۔ پاکستان کے صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی زیادہ تر آبادی کا انحصار ماہی گیری پر ہے، جو کہ روزگار کے ساتھ ساتھ آمدنی بڑھانے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہو سکتا ہے. 
صوبہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ کے آبی ذخائر زراعت کے ساتھ ساتھ ماہی پروری کے لیے بھی مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں. پاکستان کے شمالی علاقہ جات خاص طور پر ملاکنڈ ،ہزارہ اور سوات میں پانی کے وافر ذخائر ماہی پروری کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔ یہاں پرعموماً پانی کا درجہ حرارت 22 سنٹی گریڈ سے کم ہوتا ہے جو کہ قیمتی ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش کے لیے انتہائی موزوں ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ٹراؤٹ مچھلی کی پیداوار اب بھی بہت کم ہے۔ ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش نسل کی تاریخ قیام پاکستان سے بھی قبل کی ہے جب ملاکنڈ کے ایک انگریز افسر ایچ آر ہے نے 1930 میں ٹراؤٹ مچھلی کو پہلی مرتبہ سوات اور چترال کے دریاؤں میں چھوڑ دیا تھا بعد ازاں 1960 کی دہائی میں حکومت پاکستان کی کوششوں سے ہیچریز قائم کر کے اس کی مصنوعی افزائش نسل کرتے ہوئے ٹراؤٹ مچھلی کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔ ٹراؤٹ مچھلی کی محتلف اقسام ہیں اور شمالی علاقوں میں پائے جانے والے فش فارم میں 90 فیصد ریمبو ٹراؤٹ مچھلی کی ہے۔ اس مچھلی کی خصوصیات میں تیز نشوونما، تبدیلی درجہِ حرارت کی برداشت بھی شامل ہیں۔ شمالی علاقوں میں قائم ہیچریز کو سیلاب سے اکثر وبیشتر نقصان پہنچتا ہے لیکن نجی اور سرکاری سطح پر ماہی پروری کے شعبے کے فروغ کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ ٹراوٹ مچھلی کی افزائش کے حوالے سے محکمہ ماہی پروری خیبر پختونخوا کا کردار قابل زکر ہے۔ محکمہ ہذا کے مختلف اقدامات کی بدولت نجی اور سرکاری شعبے میں ماہی پروری کی پیداوار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اگر سرکاری اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے شمالی علاقہ جات میں ٹراؤٹ مچھلی کی پیداوار کا گراف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔اس حوالے سے محکمے نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت مختلف منصوبے شروع کیے ہیں جس کے حوصلہ افزانتائج سامنے آرہے ہیں۔ محکمہ ماہی پروری خیبر پختونخواہ سے جب ان کے مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مختلف مجوزہ منصوبوں کا ذکر کیا جن میں مچھلی کی بروقت ترسیل کیلئے کولڈ سٹوریج ، فش پروسیسنگ یونٹ اور ، فش ریسرچ سینٹر کے قیام کے علاوہ مچھلیوں کی نئی اقسام کو متعارف کرانا ماہی پروری کے حوالے سے قانون سازی اور مچھلی کی خوراک کے لیے ضلع سوات میں ایک پلانٹ کا قیام کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ ماہی پروری کی صنعت کو فروغ دینے سے نہ صرف سرکاری سطح پر بلکہ نجی شعبے میں بھی روزگار کے وافر مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی غذائی ضروریات کے حصول میں بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

http://www.dailyaeen.com.pk/uploads/newspaper/Newspaper_peshawar_editorial4_2019-04-16_4.JPG

احتلاف رائے اور جمہوریت

 اظہارِ  رائے کی آزادی جسے انگریزی میں فریڈم آف  سپیچ اینڈ ایکسپریشن کہا جاتاہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا سادہ سامطلب بولنے کی آزادی ہے، اس میں لکھنے کی آزادی بھی شامل ہے۔کسی بھی جمہوری معاشرے میں شہریوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے. اسی اظہار رائے کی آزادی سے ہمیں اختلاف رائے کا پتہ چلتا ہے اور اجتماعی طور آپس میں اختلاف رائے کا پایا جانا کسی بھی جمہوری معاشرے کی ترقی اور نمو میں اہم کردار ادا کرتا ہے. جب کسی بھی موضوع پر محتلف رائے سامنے آتی  ہیں، تو اس سے ہمیں اس زیرِ بحث موضوع کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب ایک موضوع یا مسئلے پر ایک سے زیادہ لوگ اپنی اپنی رائے پیش کرتے ہیں تو دراصل وہ تمام لوگ اپنی فہم و فراست اور تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اس مسئلے کے پائیدار حل یا کسی منصوبے کی بہتری میں اپنے حصے کی شمع روشن کر رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ ایسی سینکڑوں مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں پر عظیم لوگوں کے درمیان بھی مختلف امور پر اختلاف رائے پایا جاتا تھا جس کا مقصد کسی بھی معاملے پر مختلف پہلوؤں سے غور کر کے اس کی خامیوں کو کم سے کم کرنا تھا.

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی صحت مند جمہوری معاشرے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور اسی امر کے پیش نظر اسمبلیوں میں حزب اختلاف کو ایک بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے. پاکستان کی موجودہ سیاست میں یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ ناصرف پارلیمنٹ بلکہ سیاسی پارٹیوں کے اکابرین میں بھی مختلف امور پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔  سیاست دان اس اختلاف رائے کے رکھنے کے باوجود بھی ایک چھتری تلے سیاسی عمل میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں.

حضرت مفتی شفیع رحمة اللّہ علیہ اختلاف رائے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اہل عقل بصیرت پر مخفی نہیں کہ دینی و دنیوی دونوں قسم کے معاملات میں بہت سے مسائل ایسے آتے ہیں جن میں آراء مختلف ہو سکتی ہیں ان میں اختلاف عین عقل و دیانت کے مطابق ہے. وہ مزید بتاتے ہیں کہ ان میں اتفاق دو صورتوں میں ہو سکتا ہے ایک تو یہ کہ اس مجمع میں کوئی اہل بصیرت و اہل رائے نہ ہو یا پھر جان بوجھ کر اپنے ضمیر اور رائے کے خلاف دوسرے کی بات سے اتفاق کرے.

ہمارے وطن عزیز میں کچھ لوگوں کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ معمولی اختلاف کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں جیسے ملک میں کوئی بہت بڑا کہرام مچ گیا ہو. اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بعض اوقات اختلافات اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں جس سے بڑے بڑے نقصانات کا اندیشہ ہوتا ہے مگر کسی ایک مسئلے پر اختلاف رائے کو اتنی ہوا دینا اور لوگوں میں ایک منفی تاثر پیدا کرنا کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے. حال ہی میں کچھ امور پر ایسے واقعات جن کا تعلق اہم اداروں سے متعلق قانون سازی سے تھا، بہت زیادہ  واویلا کیا گیا۔  یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلاف رائے  کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا اور ایک غیر یقینی کی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ ایک غیر ضروری واویلا تھا. میری ذاتی رائے میں اس طرح اختلاف رائے پر غیر ضروری تبصروں اور واویلا سے اجتناب کرنا چاہیے اور  حکومت، پارٹیوں، گروپوں وغیرہ کے درمیان موجود اختلاف رائے کو مثبت انداز میں دیکھتے ہوئے اپنی زبان اور قلم کو ملک اور قوم کی بہتری کے لیے مثبت انداز میں استعمال کرنا چاہیے۔ غیر ضروری اختلاف رائے رکھنے والوں کیلئے اعجاز رحمانی کی زبان  میں اتنا ہی کہوں گا

اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے
مگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے
اسے تو اپنی بھی صورت نظر نہیں آتی
وہ اپنے شیشۂ دل کی تو گرد صاف کرے!

https://www.mukaalma.com/90815/



DA NAN SAWAL-40

  پروگرام : دا نن سوال / آج کا سوال ( نشر مکرر) موضوع : یوم پاکستان (پشتو زبان میں ) مہمان: پرنسپل / لیث محمد - ( محکمہ ابتدائی و ثانوی ...