جمعرات, فروری 20, 2020

(ماہی پروری اور روزگار کے مواقع۔ اشاعت روزنامہ آئین پشاور۔ 16 اپریل 2019)



پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصد ڈگری کا حصول ہے جو کہ ایک نوکری کی تلاش میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ بہت کم نوجوان اس غرض سے تعلیم حاصل کرتے ہیں یا پھر ایسے تدریسی شعبوں کا انتخاب کرلیتے ہیں جن کی مدد سے وہ انٹرپنورشپ یا اپنے ذاتی کاروبار کا آغاز کرسکیں۔ ماہی پروری یا تجارتی بنیادوں پر تالابوں میں مچھلیاں پالنے کی صنعت کو اس وقت دنیا میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس مقصد کے لئے ناکارہ سیم زدہ اور کلر زدہ اراضی بھی استعمال میں لائی جاسکتی ہے۔ جس تیزی سے انسانوں کی خوراک کی ضروریات بڑ رہی ہیں اسی تناسب سے ہمیں اپنے وسائل اور ذرائع کو بھی بڑھانا ہو گا۔ ماہی گیری ایک ایسی صنعت ہے جس سے ہمیں پروٹین سے بھرپور غذا آسانی سے دستیاب ہو سکتی ہے۔ ماہی گیری اور آبی وسائل کا مناسب استعمال نہ صرف تحفظ خوراک کی ضما نت ہے بلکہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔آج کے جدیددور میں ناموزوں شکاری آلات اور جس بے دریغ طریقے سے سمندروں اور دریاؤں میں مچھلیوں کا شکار جاری ہے تویہ خدشہ خارج از امکان نہیں کہ عنقریب ہمیں اس قیمتی قدرتی غذائی نعمت کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 
پاکستان کا تقریبا 814 کلو میٹر کا علاقہ ساحل سمندر پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں ماہی گیری کے کثیروسائل موجود ہیں۔ پاکستان کے صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی زیادہ تر آبادی کا انحصار ماہی گیری پر ہے، جو کہ روزگار کے ساتھ ساتھ آمدنی بڑھانے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہو سکتا ہے. 
صوبہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ کے آبی ذخائر زراعت کے ساتھ ساتھ ماہی پروری کے لیے بھی مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں. پاکستان کے شمالی علاقہ جات خاص طور پر ملاکنڈ ،ہزارہ اور سوات میں پانی کے وافر ذخائر ماہی پروری کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔ یہاں پرعموماً پانی کا درجہ حرارت 22 سنٹی گریڈ سے کم ہوتا ہے جو کہ قیمتی ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش کے لیے انتہائی موزوں ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ٹراؤٹ مچھلی کی پیداوار اب بھی بہت کم ہے۔ ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش نسل کی تاریخ قیام پاکستان سے بھی قبل کی ہے جب ملاکنڈ کے ایک انگریز افسر ایچ آر ہے نے 1930 میں ٹراؤٹ مچھلی کو پہلی مرتبہ سوات اور چترال کے دریاؤں میں چھوڑ دیا تھا بعد ازاں 1960 کی دہائی میں حکومت پاکستان کی کوششوں سے ہیچریز قائم کر کے اس کی مصنوعی افزائش نسل کرتے ہوئے ٹراؤٹ مچھلی کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔ ٹراؤٹ مچھلی کی محتلف اقسام ہیں اور شمالی علاقوں میں پائے جانے والے فش فارم میں 90 فیصد ریمبو ٹراؤٹ مچھلی کی ہے۔ اس مچھلی کی خصوصیات میں تیز نشوونما، تبدیلی درجہِ حرارت کی برداشت بھی شامل ہیں۔ شمالی علاقوں میں قائم ہیچریز کو سیلاب سے اکثر وبیشتر نقصان پہنچتا ہے لیکن نجی اور سرکاری سطح پر ماہی پروری کے شعبے کے فروغ کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ ٹراوٹ مچھلی کی افزائش کے حوالے سے محکمہ ماہی پروری خیبر پختونخوا کا کردار قابل زکر ہے۔ محکمہ ہذا کے مختلف اقدامات کی بدولت نجی اور سرکاری شعبے میں ماہی پروری کی پیداوار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اگر سرکاری اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے شمالی علاقہ جات میں ٹراؤٹ مچھلی کی پیداوار کا گراف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔اس حوالے سے محکمے نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت مختلف منصوبے شروع کیے ہیں جس کے حوصلہ افزانتائج سامنے آرہے ہیں۔ محکمہ ماہی پروری خیبر پختونخواہ سے جب ان کے مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مختلف مجوزہ منصوبوں کا ذکر کیا جن میں مچھلی کی بروقت ترسیل کیلئے کولڈ سٹوریج ، فش پروسیسنگ یونٹ اور ، فش ریسرچ سینٹر کے قیام کے علاوہ مچھلیوں کی نئی اقسام کو متعارف کرانا ماہی پروری کے حوالے سے قانون سازی اور مچھلی کی خوراک کے لیے ضلع سوات میں ایک پلانٹ کا قیام کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ ماہی پروری کی صنعت کو فروغ دینے سے نہ صرف سرکاری سطح پر بلکہ نجی شعبے میں بھی روزگار کے وافر مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی غذائی ضروریات کے حصول میں بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

http://www.dailyaeen.com.pk/uploads/newspaper/Newspaper_peshawar_editorial4_2019-04-16_4.JPG

احتلاف رائے اور جمہوریت

 اظہارِ  رائے کی آزادی جسے انگریزی میں فریڈم آف  سپیچ اینڈ ایکسپریشن کہا جاتاہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا سادہ سامطلب بولنے کی آزادی ہے، اس میں لکھنے کی آزادی بھی شامل ہے۔کسی بھی جمہوری معاشرے میں شہریوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے. اسی اظہار رائے کی آزادی سے ہمیں اختلاف رائے کا پتہ چلتا ہے اور اجتماعی طور آپس میں اختلاف رائے کا پایا جانا کسی بھی جمہوری معاشرے کی ترقی اور نمو میں اہم کردار ادا کرتا ہے. جب کسی بھی موضوع پر محتلف رائے سامنے آتی  ہیں، تو اس سے ہمیں اس زیرِ بحث موضوع کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب ایک موضوع یا مسئلے پر ایک سے زیادہ لوگ اپنی اپنی رائے پیش کرتے ہیں تو دراصل وہ تمام لوگ اپنی فہم و فراست اور تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اس مسئلے کے پائیدار حل یا کسی منصوبے کی بہتری میں اپنے حصے کی شمع روشن کر رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ ایسی سینکڑوں مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں پر عظیم لوگوں کے درمیان بھی مختلف امور پر اختلاف رائے پایا جاتا تھا جس کا مقصد کسی بھی معاملے پر مختلف پہلوؤں سے غور کر کے اس کی خامیوں کو کم سے کم کرنا تھا.

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی صحت مند جمہوری معاشرے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور اسی امر کے پیش نظر اسمبلیوں میں حزب اختلاف کو ایک بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے. پاکستان کی موجودہ سیاست میں یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ ناصرف پارلیمنٹ بلکہ سیاسی پارٹیوں کے اکابرین میں بھی مختلف امور پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔  سیاست دان اس اختلاف رائے کے رکھنے کے باوجود بھی ایک چھتری تلے سیاسی عمل میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں.

حضرت مفتی شفیع رحمة اللّہ علیہ اختلاف رائے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اہل عقل بصیرت پر مخفی نہیں کہ دینی و دنیوی دونوں قسم کے معاملات میں بہت سے مسائل ایسے آتے ہیں جن میں آراء مختلف ہو سکتی ہیں ان میں اختلاف عین عقل و دیانت کے مطابق ہے. وہ مزید بتاتے ہیں کہ ان میں اتفاق دو صورتوں میں ہو سکتا ہے ایک تو یہ کہ اس مجمع میں کوئی اہل بصیرت و اہل رائے نہ ہو یا پھر جان بوجھ کر اپنے ضمیر اور رائے کے خلاف دوسرے کی بات سے اتفاق کرے.

ہمارے وطن عزیز میں کچھ لوگوں کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ معمولی اختلاف کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں جیسے ملک میں کوئی بہت بڑا کہرام مچ گیا ہو. اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بعض اوقات اختلافات اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں جس سے بڑے بڑے نقصانات کا اندیشہ ہوتا ہے مگر کسی ایک مسئلے پر اختلاف رائے کو اتنی ہوا دینا اور لوگوں میں ایک منفی تاثر پیدا کرنا کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے. حال ہی میں کچھ امور پر ایسے واقعات جن کا تعلق اہم اداروں سے متعلق قانون سازی سے تھا، بہت زیادہ  واویلا کیا گیا۔  یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلاف رائے  کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا اور ایک غیر یقینی کی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ ایک غیر ضروری واویلا تھا. میری ذاتی رائے میں اس طرح اختلاف رائے پر غیر ضروری تبصروں اور واویلا سے اجتناب کرنا چاہیے اور  حکومت، پارٹیوں، گروپوں وغیرہ کے درمیان موجود اختلاف رائے کو مثبت انداز میں دیکھتے ہوئے اپنی زبان اور قلم کو ملک اور قوم کی بہتری کے لیے مثبت انداز میں استعمال کرنا چاہیے۔ غیر ضروری اختلاف رائے رکھنے والوں کیلئے اعجاز رحمانی کی زبان  میں اتنا ہی کہوں گا

اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے
مگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے
اسے تو اپنی بھی صورت نظر نہیں آتی
وہ اپنے شیشۂ دل کی تو گرد صاف کرے!

https://www.mukaalma.com/90815/



DA NAN SAWAL-40

  پروگرام : دا نن سوال / آج کا سوال ( نشر مکرر) موضوع : یوم پاکستان (پشتو زبان میں ) مہمان: پرنسپل / لیث محمد - ( محکمہ ابتدائی و ثانوی ...