جمعہ, اپریل 24, 2020

موضوع: تعلیم و تربیت

موضوع: تعلیم و تربیت
کوربه / پروڈیوسر : ساجد محمود خان
مېلمه: اکبر هوتي
(23-04-2020)د زيارت ورځ ماسخوتن 10 بجې
-----------_______------------______
پښتونخوا رېډيو مردان 92.6MHz

☎️📞: 0937-9230611


https://youtu.be/yDAITDPZjOE

بدھ, اپریل 22, 2020

سازشیں جب شمار کرنا ‏

پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ دماغ ہوتوسوچاں ای سوچاں،نہ ہوتوموجاں ای موجاں، جس کا مطلب ہے کہ اگر آپ کے پاس دماغ ہو تو سوچیں ہی سوچیں ہونگی اور اگر نہ ہو تو مزے ہی مزے ہیں۔  اسی طرح میرے خیال میں اگر کسی کے پاس مناسب علم نہ ہو تو پھر ہر طرف سازشیں ہی سازشیں نظر آئیں گی۔ ہر انسان میں اپنےاردگرد کے ماحول کو سمجھنے اور اس کے بارے میں سوچنے کی جستجو اور تجسس ہوتی ہے۔  اسی تجسس کی پیاس بجھانے کے لئے وہ محتلف لوگوں کی وضاحتوں اور نظریات کو سنتا ہے اور صرف اس سادہ سی وضاحت کو ہی درست تسلیم کرتا ہے جو کہ اس کی فہم و فراست کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور جو آسانی سے سمجھ میں اجاتی ہے۔ مثلآ کسی چھوٹے بچے کو سمجھانے کے لیے ہم ایک نہایت ہی سادہ وضاحت پیش کرتے ہیں اور اگر وہی بات کسی نوجوان کو سمجھانے کے لئے تفصیل سے پیش کی جاتی ہے۔ 

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے نوجوان اور بزرگ سائنس کے پیچیدہ سے پیچیدہ عوامل اور محرکات کو مناسب طریقے سے سمجھتے نہیں ہیں لیکن ان کو بڑی آسانی اور اعتماد سے پیش کرتے ہوئے عجیب وغریب قسم کے سازشی نظریات سے ان کا تعلق بنا دیتے ہیں ۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سی اہم اور سنجیدہ باتوں کو بغیر تصدیق کے آگے بیان کرتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔  مجھے اچھی طرح یاد ہے ہے جب راقم اسلام آباد کی ایک سرکاری درسگاہ میں  اپنی ماسٹر ڈگری کے لیے زیر تعلیم تھا تو اس وقت کے ہمارے  ایک گورے پروفیسر صاحب جن کا تعلق کینیڈا سے تھا انہوں نے ہماری پوری کلاس کو ڈرون حملوں کے حوالے سے ایک اسائمنٹ لکھنے کے لئے کہا۔   جب وہ اسائنمنٹ تمام طلباء  نے جمع کرادی تو گورے پروفیسر صاحب ان تمام اسائمنٹس کو پڑھنے کے بعد کچھ یوں گویا ہوئے کہ دنیا کے کم و بیش ہر ملک  میں سازشی نظریات پائی جاتیں ہیں مگر مجھے تو حیرانگی ہوئی کہ ہر طالب علم کی ڈرون حملوں کے متعلق اپنے اپنے عجیب و غریب قسم کے سازشی نظریات ہیں۔ ان نظریات کی روشنی میں ڈرون حملوں کے پیچھے یہودیوں کی سازش ہے، ڈرون حملے بھارت کی شرارت ہے، ڈرون حملے امریکہ کی طرف سے کیے جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔  یعنی کہ جتنی منہ اتنی باتیں کے مصادق جتنے طلباء اتنے ہی سازشی نظریات قلمبند کیے گئے تھے۔ ہمارے معمر گورے پروفیسر صاحب کی تو ہمت تھی کہ وہ تمام طلباء کی سازشی نظریات سے بھرپور اسائمنٹس پڑھ لیا کرتے تھے مگر ہمیں تو بنفس نفیس لوگوں سے ان کے غیر سنجیدہ اور بے ربط سازشی نظریات سے بھر پور خیالات زبردستی سننے پڑ جاتے ہیں۔ جن کو سن کر بیک وقت ہنسنا بھی آتا ہے اور رونا بھی آتا ہے۔ وہ بے ربط مگر ایک کمزور منطق سے مربوط سازشی نظریات فضول وقت گزارنے اور اپنی قوت برداشت بڑھانے کے لیے نہایت مفید ہیں۔

اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے یے تو بازار میں کئ دنوں سے کرونا وائرس کی وباء کے حوالے سے سینکڑوں سازشی نظریات گردش کر رہی ہیں۔  ان سازشی نظریات کے پھیلانے والوں میں اچھے خاصے سے پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے حصے کی شمع روشن کر رہے ہیں۔ اس مختصر سے کالم میں ممکن تو نہیں کہ کرونا وائرس سے متعلق ان سازشی نظریات کی کو فرداً فرداً تفصیل سے بیان کیا جائے مگر چند ایک سازشی نظریات بیان کرتا چلوں جو راقم کی سماعتوں کی نظر ہوئی ہیں۔ ان سازشی نظریات میں ایک نظریہ تو یہ پیش کیا جاتا ہے کہ یہ کرونا وائرس دنیا میں 5 جی ٹیکنالوجی کو متعارف کروانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔کچھ لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ کرونا وائرس کو دنیا میں موجودہ ورلڈ آرڈر کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ( ایسے لوگوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ ورلڈ آرڈر کیا ہے )۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ اس وائرس کے ذریعے مذہبی یا ثقافتی اطوار کو بدلنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کچھ۔ لوگ اسے روس کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ 

ہمیں تو اس لفظ سازش اور امریکہ سے اتنی محبت ہو گئی ہے ہے کہ اب ہمیں وطن عزیز میں میں آنے والی قدرتی آفات جیسے زلزلوں اور  سیلابوں میں بھی امریکہ کی سازشیں نظر آتی ہے ہمیں امریکہ کی امداد سے شدید محبت  اور امریکہ کی سازشوں سے شدید نفرت ھے ہے جس کا ذکر ہم وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔  اس محبت اور سازشوں کے جذباتی کھیل میں کھبی ہم پر امریکہ کی محبت تو کبھی اس کی سازش غالب آجاتی ہے۔ ہم ان سازشی نظریات کی محبت میں آتا آگے نکل گئے ہیں کہ کبھی کبھی ہم اپنی حکومت کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر ہمیں حق اور سچ کا بول بالا کرنا ہے تو ہمیں ان سازشی نظریات کی گنتی اور محبت ترک کرنی ہونگی اور اپنی حکومت اور اداروں پر اعتماد کرنا ہو گا ورنہ بس پھر وہی بات کہ 
"محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا"

http://www.dailypaighamat.com/4.html

بدھ, اپریل 15, 2020

......موسمیاتی تبدیلی کا مقدمہ تیسری دنیا میں......

            پشتو کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ ایک بندہ بستر مرگ پر بھوک سے مر رہا اور دوسرا شخص اس کے سراہنے گھی میں تلے ہوئے پراٹھے ڈھونڈ رہا ہے۔ عالمی سطح پر بہت سے مسائل اور ان کے حل کے لیے اقدامات پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک  بھوک سے مر رہے ہیں اور امیر ممالک ان کے پاس دیسی گھی میں تلے پراٹھے ڈھونڈ رہے ہیں۔  کچھ اسی طرح کی صورت حال غریب ممالک میں موسیمیاتی تبدیلیوں کی پالیسیوں  کی بھی ہے   جہاں لوگ بھوک  وافلاس کی زد میں ہیں اور امیر ممالک  یعنی ترقی یافتہ ممالک ان سے موسیمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھانے پر زور دے رہے ہیں۔ مگر ان غریب ممالک کی ترجیحات میں خوراک کی کمی کو پورا کرنا، اسلحے کی دوڑ میں شامل ہونا ، بنیادی انفرسٹرکچر بنانا  جیسی ضروریات شامل ہیں۔  اب یہ  لوگ اسلحہ چھوڑ کر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات   تیسری دنیاکی اکثر ممالک کو بہت سے عالمی مسائل کا سامنا ہےجن میں موسمیاتی تبدیلی نہایت اہمیت کا حامل ہے مگر ستم یہ  ہے کہ ان ترقی پذیر ممالک کوموسمیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والے مسائل کی شدت کا صیح طرح ادراک بھی نہیں ہے بدقسمتی یہ بھی ہے کہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک اس مسئلے کی اگاہی کے باوجود بھی اپنے حصے کی شمع جلانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر بھی زیادہ تر غریب ممالک ہونگے جس کا ذکر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔   موسمیاتی تبدیلیوں پرآگاہی سیمینارسے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب  کے  وزیرماحولیات  نے  بھی کہا تھا   کہ موسمیاتی تبدیلیاں اوران کے اثرات دہشت گردی کے بعد سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ مگر  عالمی سطح پر  ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے  اقدامات نا کافی ہیں۔
   یہاں یہ سوال  نہایت اہم ہے کہ ریاستیں اپنے وسائل صیح طرح استعمال کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے اپنے وسائل بروئے کار کیوں نہیں لاتیں  ہیں؟   اس سوال کا جواب  ترقی یافتہ   ریاستوں اور ترقی پذیر  ریاستوں میں موجود  ذمہ داران اپنی اپنی فہم و فراست کے مطابق دیتے ہیں۔ اگر دیکھا  جائے تو عام لوگوں میں   اس سلسے میں دو  متضاد  رائے پائی جاتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی صدیوں سے  ہونے والا ایک ایسا قدرتی عمل ہے جسے روکنے کے لیے انسان   بے بس اور لاچار ہے ۔  دوسری رائے رکھنے والے لوگوں میں ایسے سنجیدہ لوگ ہیں جن کی نظر میں ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے  لیے انسان خاطر خوا اقدامات کر سکتاہے کیونکہ  ماحولیاتی مسائل کاذمہ دار انسان خود ہے۔
یہاں یہ سوال نہایت اہم ہے کہ اگر  موسیمیاتی تبدیلی کا مسئلہ اتنا  ہی شدید اور گھمبیر ہے  تو ریاستیں  اپنے وسائل کا صیح استعمال کرنے ہوئے موسیمیاتی تبدیلیوں کے برے اثرات سے بچنے کے لیے  ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیوں نہں اٹھاتیں ؟  اس  سوال کا  ایک سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ   اس مسئلے پر ہر ریاست اپنے اپنے فہم وفراست  کے مطابق اقدامات اتھاتی ہے  ، مگر ایک بات بہت واضح ہے کہ جو ریاسیتں بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کی زد میں ہیں  وہ اس مسئلے کے لیے سنجیدہ ہیں  اور انھیں اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک ہے۔ سب سے پہلے تو  لوگ  موسیمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات  ماننے کو ہی تیار ہی  نہیں ہیں اور  عام طور پر بہت سے لوگوں  میں  ماحولیاتی تبدیلیوں پر دو رائے پائی جاتی ہیں۔  ایک رائے تو ان لوگوں کی ہے جن کے خیال میں  گلیشیئر کا تیزی سے پگھلنا ، درجہ حرارت میں اضافہ ، موسمی تغیرات وغیرہ صدیوں سے چلا آرہا ایک قدرتی عمل ہے اورانسانی کوششوں سے اس پر کوئی خاص  فرق نہیں پڑ سکتا ہے۔  دوسری  قسم کی رائے رکھنے والے لوگوں کے مطابق موسیمیاتی   تبدیلی انسان کی طرف سے دنیا  میں  غیر دانشمندانہ  عمل دخل کا نتجہ ہے۔  بخثیت اشرف المخلوقات یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ  انسان نے بیشتر مسائل بشمول عالمی امن کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں وہاں موسیمیاتی تبدیلیوں سے نمٹے  کے لیے مختلف آراء اور ترجیحات پائی جاتی ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ اس مسئلے پر اقدامات اٹھانے کے حوالے سے  نہ صرف سیاستدانوں بلکے پڑھے لکھے دانشواروں میں بھی ایک واضح اختلاف پایا جاتا ہے۔  عالمی سطح پر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے نہ صرف ترقی یا فیہ بلکے تیسری دنیا کے غریب ممالک کو بھی اپنی سوچ اور ترجیحات کو بدلنا ہو گا  وگرنہ ایک کرونا کے عالمی مسئلے  سے لڑتے لڑتے دوسرے  دوسرے عالمی مسائل سے مخاذ جنگ نہ کھل جائے۔ 
یہ ہُجومِ شہرِ ستمگراں نہ سُنے گا تیری صدا کبھی
 مری حسرتوں کو سُخن سُنا مری خواہشوں سے خطاب کر

http://www.dailypaighamat.com/4.html

DA NAN SAWAL 3

DA NAN SAWAL-40

  پروگرام : دا نن سوال / آج کا سوال ( نشر مکرر) موضوع : یوم پاکستان (پشتو زبان میں ) مہمان: پرنسپل / لیث محمد - ( محکمہ ابتدائی و ثانوی ...