منگل, اپریل 30, 2019

..۔۔ہم سب کو ملک کی ترقی کی امید رکھنی چاہیے۔۔ (اشاعت: ہم سب 30 اپریل 2019)


ملکی اور بین الاقوامی حالات جس تیزی سے بدلتے ہیں اس سے کسی بھی ملک کی سیاست اور معیشت کے بارے میں  صحیح طرح  اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔  کسی بھی ملک کی سیاست اور معیشت میں انسانی رویے اور سوچ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انسانی رویوں اور سوچ کے بارے میں حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی کیونکہ کہ یہ انتہائی پیچیدہ ہوتے ہیں۔ جب امریکہ کے صدارتی الیکشن 2016   میں ہلری کلنٹن کو شکست ہوئی اور ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا صدر بن گیا تو یہ دنیا کے لئے حیرت کا سبب تھا حالانکہ اس الیکشن میں ہیلری کلنٹن نے 65,853,514 جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 62,984,828 پاپولر ووٹ حاصل کیے۔ اس الیکشن میں  تمام تر پیشنگوئیوں اور مقبولیت  کے برعکس ہیلری کلنٹن کو شکست ہو گئی۔  ابھی حال ہی میں ہونے والے یوکرائن کے صدارتی انتخاب میں ایک ناتجربہ کار سیاستدان ہونے کے باوجود  کامیڈین Volodymyr Zelenskiy  جس نے 73 فیصد ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی ہے۔ یوکرائن کے اس کامیڈین کی الیکشن میں حیرت انگیز کامیابی نے اسے عالمی میڈیا کے خبروں کی زینت بنا دیا۔ اس حیرت انگیز کامیابی سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں لوگوں کی پروان چڑھتی ہوئی سوچ کے بارے میں پیشن گوئی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اکثر  بہت سے ملکی اور غیر ملکی ادارے پاکستان کی معاشی ترقی اور دوسرے شعبوں کے بارے میں لمبے عرصے کے لیے محتلف پیشن گوئیاں تو کرتے ہیں لیکن اکثر حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں۔ ان اداروں کی رپورٹس میں کبھی ہم ایشیاء میں سب سے تیزی سے ابھرنے والے معاشی ممالک میں ہوتے ہیں اور کبھی ہماری جی ڈی پی کی شرح نیپال اور بنگلادیش سے بھی کم ہوتی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں حکومتی سطح پر اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ان رپورٹوں کو بنیاد بنا کر حکومت کی اچھی یا بری کارکردگی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔  پاکستان کی معاشی اور سیاسی بحران کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی ہے۔ مگر پاکستانی عوام کے حوالے سے یہ بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ آج بھی بہت سے لوگ آپ کو یہ کہتے ہوئے نظر آئیں گے کہ ہم سب امید سے ہیں اور حکومت مخالف لوگ بھی آپ کو یہ کہتے ہوئے نظر آئیں گے کہ ہم سب بھی امید سے ہیں کہ حکومت مزید نہیں چل سکتی ہے۔ پچھلے دنوں وزیر خزانہ اسد عمر کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ ایک نئے وزیر کی تقرری کا اعلان کیا گیا جس سے بہت سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو مایوسی ہوئی مگر کچھ ایسے بھی ہیں جواب بھی کہتے ہیں ہم سب امید سے ہیں کہ حالات بہتر ہوجائیں گے۔دوسری طرف دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اپوزیشن والے بھی بہت زیادہ خوش ہیں اور وہ عوام میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ لوگ نااہل ہیں اورحکومت چلانے کا تجربہ نہیں رکھتے اور سابق صدر آصف علی زرداری کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ وہ ان کی حکومت نہیں کریں گے گرنا انہوں نے خود ہی ہے.
بدقسمتی سے تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں پارٹیوں کی سیاست صرف اور صرف اپوزیشن برائے اپوزیشن ہوتی ہے۔ محالف سیاستدانوں کی پگڑیاں اچھالنا ان کو ہر طرح سے ایک انتہائی نالائق حکمران ثابت کرنا ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو اس پر بھی صبر نہیں آتا اور وہ اپنے محالفین کو غدار ، غیر ملکی ایجنٹ اور کبھی کبھی تو سیکورٹی رسک تک ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ ان تمام حرکات کا مقصد ایک ہی امید ہوتی ہے کہ وہ اپنے محالفین کو کسی طرح اپنے سے کم تر ثابت کر سکیں اور خود کو عوام کے سامنے ایک اچھے متبادل کے طور پر پیش کر سکیں۔ یہ مقابلہ صرف اور صرف اپنی زبان سے  شائستہ اور غیر شائستہ الفاظ کے تیر چلا کر کیا جاتا ہے ایسے ماحول میں زیادہ تر ایسے  ہی لوگوں کو عہدے اور وزارتیں دی جاتی ہیں جو زبان کے تیر چلانے میں ماہر ہوں اور لوگوں کو امیدیں دلائیں کہ ان کے پاس عوام کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ 
خدا جانے کس کی امید ٹھیک ہے اور کس کے غلط مگر ان تمام باتوں اور وابستگیوں سے بالاتر ہوکر سوچیں کہ کیا ہمیں حکومت کو ناکام ہوتا دیکھ کر خوشی محسوس کرنا چاہیے ؟  یا ان کو کامیاب دیکھ کر خوشی محسوس کریں۔ بحثیت مجموعی ہماری سوچ پاکستان کی ترقی کیلئے ہونی چاہیے۔ اپنی ذاتی امید جو صرف ایک شخص یا پارٹی کے لیے ہو اس کو قربان کرنے کی ضرورت ہے اور صرف ایک ہی امید رکھنی چاہیے تاکہ اس قوم اور ملک کی ترقی میں ہر کوئی اپنے حصے کی شمع روشن کر سکے اور صحیح معنوں میں عوام کی امیدوں کو پورا کر سکے۔


https://www.humsub.com.pk/233546/sajid-mahmood-khan-3/

اتوار, اپریل 28, 2019

کیے آرزو سے پیماں جو مآل تک نہ پہنچے (اشاعت: ہم سب 28/04/2019)

https://www.humsub.com.pk/232724/sajid-mahmood-khan-2/
کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ اب لوگوں کے دلوں میں وہ خیالات کیوں نہیں آتے ہیں جو  خیالات کبھی کبھی سب کے دل میں آیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ وہ جو سب کے دلوں میں آنے والے خیالات کدھر گئے ؟ کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ 8  اکتوبر 2005 کو ایک حولناک زلزلہ آیا تھا جس نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ایک زبردست تباہی مچائی تھی لوگوں نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک نیا تجدیدِ عہد کیا تھاکہ اب اپنے ملک میں قدرتی آفات سے موثر طریقے سے نمٹنے کے لیے اپنےبحالی کے اداروں کو مضبوط کریں گے اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو وفاق اور صوبوں میں مزید فعال کیا جائے گا مگر وہ خیال کہاں گیا؟ کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ جو کبھی کسی معصوم بچی کے ریپ کے بعد قتل کرنے پر ہم سب لوگوں میں ایک غم وغصہ پایا جاتا تھا اور اس ظلم کے خلاف قانون سازی کی بات ہوتی تھی اور کبھی کبھی اس کے خلاف مہم چلانے کی بات کرتے تھے مگر جب وقت گزر جاتا ہے تو لوگ اس خیال کو کیوں بھول جاتے ہیں؟  کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ کسی زمانے میں سخت گرمی میں لوڈ شیڈنگ ہوا کرتی تھی اور کبھی کبھی لوگ گرمی کی شدت اور لوڈ شیڈنگ سے ہلاک ہوا کرتے تھے۔ اس لوڈ شیڈنگ سے لوگوں کی روز مرہ کی زندگی کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی متاثر ہوا کرتے تھے۔ گرمی کے ستائے ہوئے لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا کرتے تھے اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بجلی کے کارخانے لگائے جائیں اور عملی طور پر ڈیموں پر کام شروع کیا جائے مگر جونہی گرمی کا موسم گزر جاتا ہے یہ خیال پس پشت چلا جاتا ہے۔ ڈیموں اور بجلی کے کارخانے لگائے کا خیال ایسے غائب ہو جاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ ہم اکثر موقعوں پر سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لئے بہت آواز اٹھاتے ہیں مختلف جگہوں پر ان کے ساتھ ان کے مسائل حل کرنے کا وعدہ کرتے ہیں مگر جب کچھ وقت گزر جاتا ہے بات فائلوں اور کاغذوں سے عملی طور پر کچھ کرنے کا آتا ہے توہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے دل میں ان پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے کبھی کبھی خیالات آیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ نیوزی لینڈ میں دہشتگردی سے جاں بحق ہونے والوں کے لئے ہمارے دل میں کتنی ہمدردیاں جنم لیتی ہیں لیکن جب ہمارے ملک کے کسی علاقے میں دہشتگردی سے لوگ جانبحق ہوتے ہیں تو ان کے لیے ہم بھول جاتے ہیں کہ کسی زمانے میں ہم نے  نیوزی لینڈ میں دہشت گردی سے جان بحق ہونے والے لوگوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا تھا۔ مگر اب ہمیں اپنے لوگوں کے لیے یہ خیال نہیں آتا ہے۔  کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ ہم اکثر اپنے محافظوں اور سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کرنے کی بات کرتے ہیں جو ہم لوگوں کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں مگر جب 18 اپریل 2019 اورماڑہ, بلوچستان کوسٹل ہائی وے پر بسوں سے اتار کر سیکیورٹی اداروں کے14  اہلکاروں کو بےدردی سے مارا جاتا ہے تو ہم اور ہمارا میڈیا والے بھول جاتے ہیں کہ ان لوگوں نے اس ملک کی دفاع میں جام شہادت نوش کیا ہے اور ان کو بھی حراج عقیدت پیش کرنی چاہیے۔ ہم بھول جاتے ہیں۔  
کبھی کبھی میرے دل میں یہ آخری خیال بھی آتا کہ سب کے دلوں میں یہ خیالات کیوں نہیں آتے ہیں کہ ماضی میں ہمارے دلوں میں کئی خیالات آتے تھے۔  کیوں ہم بھول جاتے ہیں کیوں وہ سب کے دلوں میں آنے والا خیالات ماضی کا قصہ پارینہ بن جاتا ہے۔ جب بھی کوئی مشکل سر پر آن پڑتی ہے تو ہمارے دل میں بہت سے خیالات اور جذبات آتے ہیں مگر جیسے ہی کچھ اور جاتا ہے ہم بھول جاتے ہیں اور پھر کبھی دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ ہمیں بھی کبھی کوئی خیال آیا تھا۔

ہفتہ, اپریل 27, 2019

اینیمل فارم اور تحریک ناکام (Originally Published on Mukalma on 27 April 2019)


https://www.mukaalma.com/66191

              نوبل انعام یافتہ جارج آرویل کی شہرہ آفاق ناول اینیمل فارم (Animal Farm) انصاف اور مساوات کے نام پر اٹھنے والی خیالی تحریکوں اور ان کے طریقہ واردات کو نہایت عمدہ طریقے سے آشکار کرتا ہے۔ جارج آرویل نے اس ناول میں کمیونزم کی تحریک اور اس کے بنیادی اصولوں کی حلاف ورزی پر نہایت عمدہ طریقے سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ ناول کے کردار فارم کے مختلف جانور پر مشتمل ہیں جو انسانوں کے ظلم وزیادتی سے تنگ آکر ان کو اس فارم سے نکال باہر کرتے ہیں اور اپنی انصاف پسند نئ حکومت قائم کرتے ہیں مگر انصاف کی بنیاد پر بنائی گئی یہ حکومت ظالم انسانوں کی بنائی گئی حکومت سے بھی بدتر ثابت ہوتی ہے اور وہاں بھی ایک نیا طبقہ اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے جس کی اکثریت سوروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پھر یہی انقلابی جانوروں کے حکمران ہر وہ کام کرتے تھے جن کے لیے انھوں نے انسان کو بدنام کیا ہوا تھا۔
تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کے لوگ بھی شاید یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک نئی تحریک شروع کر کے رائج نظام کو بدلنے کی ابتدا کی مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلا اگر بدلہ ہے صرف انکے آقا بدلے ہیں۔ایسی تحریک اور انقلاب صرف آپ کو ایک آقا کی غلامی سے دوسرے آقا کی غلامی میں بھیج دیتے ہیں۔ بسا  اوقات انسان ایک قابل آقا کی غلامی سے ایک نالائق آقا کے غلامی میں آ جاتے ہیں۔
جب تک نظام حقیقی معنوں میں نہیں بدلتا صرف اس کا نام بدلنے سے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا ہے۔  اس بات کی مثال اسی طرح کی ہے کہ ایک نکمے اور کنگال شخص کا نام اگر آپ فقیر رکھ دیں تو تب بھی وہ نکما اور کنگال ہی رہے گا اور اگر اسی شخص کا نام آپ نواب رکھتے ہیں تو تب بھی وہ شخص نکما اور کنگال ہی رہے گا۔  اسی طرح کسی بھی نظام کو دوسرے نام سے پکارنے یا پھر یہ دعوی کرنا کہ یہ نظام نیا اور بہترین ہے اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ہے جب تک عملی طور پر اس نظام کو بہتر بنانے کے لئے عملی طور پر اقدامات کیے جائیں۔  ترقی کا سفر چند افراد کے بدلنے سے نہیں بلکہ معاشرے کی اجتماعی سوچ بدلنے سے ہوتا ہے۔ جمہوریت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں آپ کو ایسے مداری چاہیے ہوتے ہیں جو عوام کو یہ باور کرا سکیں کہ ان کے تمام مسائل کا حل صرف ان کے پاس ہے اور وہ عوام کو بار بار یہ باور کراتے ہیں کہ اگر ملک کے مسائل سے جان چھڑانی ہے تو ان کے پارٹی کو ووٹ دیں اور انہیں کے امیدواروں کو کامیاب کریں تاکہ آپ کے تمام مسائل حل ہو سکیں۔ جوہی پارٹی برسراقتدار آتی ہے پتہ چلتا ہے کہ نظام کی تبدیلی کے لیے وقت اور وسائل کا ہونا بہت ضروری ہے۔تبدیلی چند دنوں یہ چند گھنٹوں کا کھیل نہیں کسی بھی معاشرے یا قوم کے نظام میں تبدیلی ہی تبدیلی آتی ہے جب وہ ایک مسلسل جدوجہد سے گزرتے ہیں۔ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں آپ کو انتخابات کے وقت ایسے ایسے نعرے سننے کو ملیں گے ایسے ایسے وعدے سننے کو ملیں گے جن کے اوپر پارٹیوں نے کسی بھی قسم کی تحقیق نہیں ہوتی مگر عوام سے جھوٹے وعدے کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آتے ہیں یہ تمام وعدے پورے کریں گے۔ اور عوام میں یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اب ہم حقیقی معنوں میں فقیر سے نواب بن جائیں گے۔

جمعہ, اپریل 19, 2019

معاہدہ ورسائے ، کارٹون اور مستقبل ( اشاعت19 اپریل 2019 :www.humsub.com.pk )




  پہلی جنگ عظیم کے وقت برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ لائیڈ جارج، فرانس کے صدر جارج کلیمانسو اور امریکا کے صدر ووڈرو ولسن تھے ان ممالک کے اتحاد کو مشترکہ طور پر اتحادی ممالک کا نام دیا گیا تھا۔   28 جون 1919ء کو پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر  جرمنی کی شکست پر جرمنی اور اتحادی ممالک کے درمیان ایک  معاہدہ ہوا تھا۔ جس کا نام معاہدۂ ورسائے  ( Treaty of Versailles) کہتے ہیں۔ اس معاہدے کی رو سے  اتحادی ممالک نے جنگ کی تمام تر ذمہ داری جرمنی پر ڈالی گئی ۔ اس معاہدے میں جرمنی پر کڑی شرائط پر مشتمل ایک سحت گیر معاہدہ تھونپ دیا گیا تھا۔ جبکے اسی جنگ میں شامل  جرمنی کی دیگر حلیف ریاستوں کے ساتھ الگ  نوعیت کے معاہدے طے ہوے تھے۔ معاہدے میں جنگ کی ذمّہ داری کے ساتھ ساتھ اور  بھی بہت سی کڑی شرائط شامل کی گئیں جن میں سے جرمنی کا جنگ کے شروعات کی مکمل ذمہ داری قبول کرنا،عسکری لحاظہ سے غیر مسلح ہونا، کئی علاقوں سے دستبردار ہونا اور متعدد ممالک کو تاوانِ جنگ کی رقم ادا کرنا شامل تھے۔ اس زر تلافی کی کل رقم 1921ء میں 132 ارب مارک (31.5 ارب ڈالر یا 6.6 ارب پاؤنڈ) تھی۔اگر اس معاہدے  کو مزید تفصیل سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس معاہدے کی رو سے جرمنی کو اپنے 13 فیصد علاقے، 12 فیصد آبادی، 48 فیصد لوہے کی کانوں اور دس فیصد کوئلے کی کانوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ تاوان جنگ کی رقم اس کے علاوہ تھی۔ جرمنی کی فوج کم کر کے ایک لاکھ افراد پر مشتمل کر دی گئی۔ اس کی نیوی میں صرف 36 جہاز رہ گئے۔ آبدوز رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ فضائیہ بھی سرے سے ختم کر دی گئی۔ اس بات سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا کہ اس معاہدے کی کئی شرائط پر عمل نہیں ہوا جن میں سے ایک اہم  شرط جرمنی کو مکمل طور پر عسکری لحاظ سے غیر مسلح کرنا تھا۔  اس معاہدے کا ایک مقصد جرمنی کو کمزور کرنا تھا تاکہ وہ مستقبل میں کوئی بھی جنگ شروع نہ کر سکے مگر بدقسمتی سے اسی شرط پر عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا اور یہی وجہ دوسری جنگ عظیم کے آغاز کی وجوہات میں سے ایک وجہ تھی۔
اب کچھ ذکر William Henry Dyson (3 September 1880 – 21 January 1938) کے اس کارٹون کا کرتے ہیں جس کا عنوان   "Peace and future cannon fodder" ہے۔یہ کارٹون  13 مئی 1919 کو  برطانیہ کے اخبار ڈیلی ہیرالڈ میں شائع ہوا تھا۔ اس کارٹون میں چار بڑی طاقتوں برطانیہ، فرانس، اٹلی اور امریکہ  کے سربراہان کو ایک اہم میٹنگ کے بعد جاتے ہوئے دیکھایا گیا ہے جبکے ایک بے لباس چھوٹا بچہ  دیوار کی طرف منہ کر کے رو رہا ہے۔ اس کارٹون میں روتے ہوئے چھوٹے بچے کو جرمنی سے تشبیح دی گئی ہے۔ اس موقع پر اٹلی کے سربراہ جس کا عرف عام ٹائگر تھا تعجب سے پوچھتا ہے کہ مجھے کسی کے رونے کی آواز آرہی ہے۔ اس کارٹون میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ کس طرح سے اس معاہدے کو جرمنی پر زبردستی تھونپ دیا گیا ہے مگر وہ اس معاہدے سے ناخوش ہے۔ اس کارٹون میں چھوٹے بچے کا بے لباس ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جرمنی کے ساتھ ذلت آمیز شرائط پر مبنی معاہدے کے ساتھ بے آبرو بھی کیا جا رہا ہے اور اس کی سنی نہیں جارہی ہے۔ اس کارٹون کے عنوان "Peace and future cannon fodder" میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ کس طرح سے یہ ذلت آمیز معاہدے مستقبل میں توپوں کا ایندھن بنے گا اور دنیا کے لیے ایک بڑی کا سبب بنے گا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ  کارٹونسٹ   William Henry Dyson کی پیشن گوئی صحیح ثابت ہوئی اور تقریباً 20 سال بعد دنیا ایک بار پھر سے تباہی سے دوچار ہوئی۔  اسی معاہدے پر  دسمبر 1919 میں ایک ماہر معاشیات John Maynard Keynes نے بھی اپنی ایک  تنقیدی تحریر جس کا عنوان "امن کے معاشی نتائج"  The Economic Consequences of the Peace میں شدید  تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور مزید تفصیل میں لکھا کہ اس طرح کی کڑی شرائط سے جرمنی معاشی طور پر دیوالیہ ہو جائے گا جس سے یورپ اور دنیا معاشی اور سیاسی نظام پر برے اثرات مرتب ہونگے جو مزید امن خراب ہونے کا سبب بنے گا۔ بدقسمتی سے بڑی طاقتوں کے بڑے رہبروں نے ان کارٹونسٹ اور ماہر معاشیات کی باتوں پر توجہ نہ دی اور ان پر کسی قسم کا غور وفکر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ آج بھی شاید کوئی کارٹون بنا کر مستقبل کے کسی حادثے کی طرف اشارہ کر رہا ہو مگر کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔ شاید آج بھی کوئی ماہر معاشیات کسی بڑی معاشی تباہی کا عندیہ دے رہا ہو مگر کوئی بھی توجہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ شاید آج بھی کوئی شاعر اپنے کسی شعر میں کسی آتش فشانی لاوے کا ذکر کر رہا ہوں مگر سنے والا کوئی نہیں ہے۔ شاید آج بھی کوئی موسیقار غم میں ڈوبا کوئی راگ بجا رہا ہو مگر کوئی سامع نہیں ہے۔
https://www.humsub.com.pk/230546/sajid-mahmood-khan/

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ساجد محمود خان


بدھ, اپریل 10, 2019

موسمی پیشن گوئی اور سطحی مذہبی لوگ

کئی روز سے مسلسل برشیں ہو رہی تھیں۔ بدھ کے دن احمد نے انٹرنیٹ پر موسم کا حال معلوم کیا تو یہ دیکھ کر خوش ہوا کہ جمعہ کے دن دھوپ نکل آئے گی۔

اگلے دن جمرات کو احمد کے والد نے کہا کہ جمعہ کے دن خیرات کرتے ہیں اور چونکہ باردشیں ہیں اس لئے تامبو کا انتظام کرنا ہوگا۔

جمعہ کا دن آیا تو بادل چھٹ گئے اور دوھوپ نکل آئی۔ احمد کے والد بڑے خوش ہوئے اور ہر کسی سے کہنے لگے کہ ﷲ کے کمال دیکھو، جب میں نے خیرات کا فیصلہ کیا تو ﷲ تعالیٰ نے موسم صاف کرکے ہماری مدد کی۔ واقعی ﷲ تعالیٰ مسلمانوں کا بہت بڑا مدد گار ہے۔ پھر احمد کے والد نے علامہ اقبال یہ یہ شعر پڑھنے لگا
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

احمد نے پہلے سوچا کہ والد اس انٹرنیٹ والی پیشن گوئی کے متعلق بتائے لیکن والد کے جوش و خروش کو دیکھ کر خاموش رہا۔

منگل, اپریل 09, 2019

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا



بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا​ اور جب بدنام ہو کے نام ہوگا تو کیا کام نہ ہوگا  ۔ 15 مارچ 2019 کو کرائسٹ چرچ کی النور مسجد حملے میں تقریباً 50  افراد شہید اور اتنے ہی افراد زخمی ہوئے۔ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں جس طرح سے مسجد پر ایک دہشت گرد نے حملہ کر کے نفرتوں کا ایک سلسلہ شروع کرنا چاہا جو بری طرح سے ناکام ہوگیا۔ یہ حملہ نہ صرف نیوزی لینڈ کے معاشرے میں بدامنی پھیلانے کی کوشش تھی بلکے اپنے نفرت انگیز نظریات کی تقویت اور پرچار کی بھی ایک کوشش کی تھی۔ اس حملے نے نہ صرف نیوزی لینڈ کے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکے مغربی ممالک میں اسلامو فوبیہ کے حوالے سے بھی بہت سے سوالات اٹھائے ہیں۔ اس حملے کے لیے جس طرح سے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے نفرت پر مبنی مواد نشر کیا تو اس سے یہی بات عیاں ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو مارنے سے زیادہ اپنے نفرتوں سے بھرپور نظریات کی پرچار کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اس کرہ ارض پر نظریات کی یہ جنگ ازل سے جاری ہے، جس میں کبھی شر اور کبھی خیر غالب رہتا ہے۔  وہ بے نام دہشت گرد جو کہ نام اور نفرت انگیز نظریات کی تشہیر کرنا چاہتا تھا بے نام ہی رہ گیا ہے. کسی بھی دہشتگرد یا دہشتگرد گروہ کے لیے اس کے نظریات کی پرچار اور اس کی دہشت گردانہ کاروائیوں کی پرچار معاشرے میں خوف و ہراس کا سبب بنتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر وبیشتر دہشت گرد بعض اوقات چھوٹے چھوٹےواقعات سے بھی لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا کر اپنی دہشت کی دھاک لوگوں کے دلوں میں بٹھاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام میں بھی کسی بھی برائی کی تشہیر سے منع کیا گیا ہےجس سے اس برائی یا اس کے کرنے والے کو تقویت ملے۔ اگر بنی نوع انسان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے بنانے اور بگاڑنے میں انسانی نظریات بہت اہمیت کا حامل ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر نظریات سے اختلاف اور اسے برداشت کرنے کا حوصلہ کسی بھی معاشرے کا حسنِ ہوتا ہے لیکن محظ احتلاف کی بنیاد پر کسی کے خلاف تشدد اور طاقت کا استعمال انتہائی قابل مذمت عمل ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا یہ بیان سن کر بہت خوشی ہوئی کہ جس میں انھوں نے کہا کہ" وہ دہشت گرد ہے۔ وہ مجرم ہے۔ وہ انتہا پسند ہے۔ لیکن میں جب بھی اس بارے میں بات کروں گی وہ بے نام رہے گا۔" اور وہی ہوا کہ لوگ نہ تو اس شخص کو اور نہ ہی اس کے نظریات کا ذکر کر رہے ہیں۔
ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام​
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔


پیر, اپریل 01, 2019

IRAN'S QUEST FOR NUCLEAR PROGRAM


       ( Originally Published in DailyTimes Peshawar on 1 April 2019) To understand the state’s motivation for acquiring the nuclear weapons vary from nation to nation. It is still debated that whether the nuclear weapons have contributed towards the global peace and stability or is actually a recipe for disaster. The states’ desire to acquire the nuclear weapons has increased but very few have the capability to develop weapons because it's difficult to develop and maintain nuclear weapons therefore, only a handful of countries possessed it. The  distribution of power in any region   dictates state’s behavior. Therefore, the more power a state acquires the more aggressive behavior it will adopt which consequently leads to balancing or imbalancing the power equation. Although the nuclear weapons merely meant for deterrence, but there is no guarantee that these could or would never be used. States sometimes resort to behavior which can neither be termed rational nor proportionate to some given circumstances and thus could lead to situation which might involve use of the nuclear weapons. There are certain organizational structures and mechanisms, which have their own interests, standard operating procedures, and customs which sometimes could remain outside the control of the political leadership, and therefore an accidental or an unauthorized use of the nuclear weapons would always remain a possibility. The political horizon has been playing a direct bearing or linkage with the Iranian nuclear program. The attack of chemical weapon on Iran by Saddam Hussain regime in 1983 allegedly provided by the USA at that time, was one of the major factors for reorganizing Iran nuclear programme for military purposes. This attack changes the whole perceptions of Iranians regarding their security and the nuclear weapons. It also changes the threat perceptions of Iranians, which made them, realize that such attacks could possibly pose serious threats to its basic survival of Iranian people in the future.  Iran put the matter of using chemical weapon against Saddam Hussain in the United Nation for condemning this act by Iraq, but the USA resisted and save the face of Iraq and Saddam Hussain from defamation in United Nations. All of this made Iranians realized that Iran has to take its own security measures in international anarchic system for its survival and security and the major powers were there only for their own vested interests.

The Israel factor is another issue of concern for the Iranian nuclear program since from very beginning, the Iranian Revolution regarded Israel as a foremost threat to its national security after the US. Despite maintaining an ambiguous posture over its nuclear program, the world clearly knows that Israel possesses the nuclear weapons. Israeli nuclear capability remains the driving force behind the Iranian desire to pursue the quest for developing the nuclear weapons.

Iranian nuclear program was nourished with the blessing of Eisenhower’s administration. Iranian Shah wanted an alternative energy source since he regarded its natural oil reserves are finite. Furthermore, Iran also regarded that the nuclear technology would raise Iranian regional and global stature by bringing it in the category of developed and technologically advance nation. Historically Iran followed a policy of developing nuclear arsenal even during the peacetime but it was an uneasy job for the reason that it was bound with the obligations of the treaty unlike the North Korea. Iran is signatory to the Nuclear Non-Proliferation Treaty and has been bound with the obligations of the treaty unlike the North Korea. Iran also wants to stay engaged with the international community and avoid isolation therefore; it has remained continuously engaged in negotiations with the western powers and has never closed its doors on them.
Therefore, the Iranian claims concerning its nuclear program remains hidden under the cloak of rhetoric and reality. Notably, since the Islamic Revolution Iran's nuclear program would be extremely helpful in understanding the priorities and nature of Iranian regime. Most of the authors are of the views that Iranian regional and extra-regional perspective through the eyes of western prism does not necessarily give an accurate picture. It is highly essential to explore the state’s behavior that could become the driving motive or intent for acquiring the nuclear weapons in his famous work.

In addition, the Iranian stance towards nuclear arms is inspired from various factors, which support its stance on the grounds of recent invasions in Afghanistan and Iraq , and mainly because of the reasons that both states were unable to counter and dissuade the aggressor or at least properly handle the mere threats of invasion, while minimizing the risks. while minimizing the security risks and threats of aggression from the regional and outer-regional powers.  The external threats to Iranian security perception outlined the motivation behind Iran’s quest for the nuclear weapon. Moreover, there are various plausible reasons and motivations behind Iran's pursuit for nuclear weapon besides various implications after Iran acquired this capability. After the failure of nuclear deal implementation with the international community to resolve the enduring nuclear crisis, Iran would opt for the progress of its nuclear program and ensure its dominant role in the regional affair at any cost. Iran after acquiring the nuclear capability would use it as means to change the rules of the game in the region. More so, the nuclear weapons have hardly proved to be a successful tool of coercion and lose their efficacy if used for any other purpose of deterrence. Iran is adamant to use all means available at its disposal to dictate other of its status of a regional power, and the nuclear weapons option merely aims at achieving such objectives. 
This assertion based on the assumption, that Iran like any other nation is primarily concerned about its own security rather to establish hegemony on the region. The other perspective postulates that states in an international society would mainly be concerned in deterring other states, pursuing their quest for autonomy, and endeavoring for greater regional influence. 

The US-Iran confrontation is not just about the nuclear program but rather is a much complex phenomenon that has its roots in the revolution of 1979. This gulf was further widened once the US provided Iraq with chemical weapons that Iraq successfully used against Iran. Therefore, the confrontation is deeper and much intense than actually what it appears in the diplomatic circles. The realities of US-Iran relationship at the lowest ebb also identify certain factors, which aggravates the tensions and particularly in the post 9/11 era, the relationship has taken a new turn. After the invasion of Afghanistan followed by Iraq, Iran viewed that it could be the next in line especially amid the “axis of evil” speech. Therefore, then President Muhammad Ahmedinejad proclaimed that the Iran-US confrontation may lead to a war in the region. However, in the prevailing context, the best method by the United States to deal and ultimately restore its diplomatic relations with Iran, but after the election of Hassan Rouhani, most  see an increasingly moderate stance by the newly elected Iranian government. 

Iran as a rational actor like of any other state that is pursuing policies in line with its perceived national objectives and goals. The US policy towards Iran viewed as shortsighted that merely helped the hardliners to gain popularity by selling anti-American sentiments even after economic stagnation that they have effectively attributed because of victimization by the US. Therefore, the policy makers at the Capitol Hill need to formulate a more balanced approach that caters for both positive incentives, if Iran changes its behavior, as well as punitive measures in case of non-compliance. The common grounds for their respective national interests by the US and Iran in a variety of diverse fields through cooperation and confidence-building measures could exceptionally assist both sides to overcome the existing gaps for collective benefit. There are many common grounds in Afghanistan, Central Asian region around Caspian and also in the Middle East which could have a lot in common between the US and Iran in future.
Email: smk.imperial@gmail.com

DA NAN SAWAL-40

  پروگرام : دا نن سوال / آج کا سوال ( نشر مکرر) موضوع : یوم پاکستان (پشتو زبان میں ) مہمان: پرنسپل / لیث محمد - ( محکمہ ابتدائی و ثانوی ...