جمعہ, اگست 30, 2019

مت قتل کرو آوازوں کو



میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازؔ​
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا​

احمد فرازؔ​

جی ہاں صحرائے محبت کے  اس مسافر کا سفر 25 اگست 2008 کو اپنے احتتام پر پہنچا۔  احمد فراز  12 جنوری، 1931ء کو  خیبر پختونخوا کے شہرکوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ ' تھا۔  بلاشبہ احمد فراز ایک عہد کا نام ہے جسے چند سطور، لفظوں یا کتابوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے مگر ان کے حوالے سے یہ بات واضح کرتا چلوں کہ شاید وہ واحد شاعر ہیں جو اپنی زندگی میں ہی رومانوی اور انقلابی دونوں اقسام کی شاعری میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ میری رائے میں فراز کی شاعری ایک ایسا آئینہ ہے  جس میں بیک وقت ہمیں ہماری ذات کا رومان اور ہمارے معاشرے  کی حقیقی تصویر نظر آتی ہے۔ آج احمد فراز کی ایک خوبصورت نظم آپ کی سماعتوں کی نظر کرتا ہوں۔ یہ نظم ہر اس آواز کیلئے جسے ظالم دبانے کی کوشش کرتا۔ یہ آواز کبھی جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کی ہوتی تو کبھی ان معصوم بچوں کی جن کو زیادتی و درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا جاتا ہے،  اس آواز کے لئے آواز بلند کرنا ہم سب پر فرض ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مت قتل کرو آوازوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو

ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو

اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو

ہم پالنہار ہیں پھولوں کے
ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے ہو
ہم پیار سکھانے والے ہیں

اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے
جب حرف یہاں مر جائے گا
جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی
جب شعر سفر کر جائے گا

جب قتل ہوا سر سازوں کا
جب کال پڑا آوازوں کا

جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں

جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے​

(احمد فراز)​
ساجد محمود خان

بدھ, اگست 28, 2019

مفرد اعداد کے درمیان فرق

 

مفرد اعداد کیا ہیں: مفرد اعداد وہ اعداد یا ہندسے ہیں جو صرف ایک اور اپنے آپ پر پورے پورے تقسیم ہوتے ہیں۔ مطلب، جب ان کو کسی بھی نمبر سے تقسیم کیا جائے تو باقی کچھ نہ کچھ بچے گا۔ صرف ایک اور خود سے تقسیم ہونے پر باقی صفر بچتا ہے۔

چند اور حقائق: مفرد اعداد کی تعداد لامتناہی ہے اور ان میں بظاہر کوئی ترتیب نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا فارمولا ہے جس کے ذریعے مفرد اعداد کو معلوم کیا جائے۔ مفرد اعداد کو معلوم کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی عدد کو لے کر یہ معلوم کیا جائے کہ یہ صرف خود پر اور ایک پر تقسیم ہوتی ہے۔

میرا اس سے تعلق: مجھے مفرد اعداد بہت پسند ہیں اور میں اکثر ان سے بچوں کی طرح کھیلتا رہتا ہوں اور ان میں کوئی نہ کوئی ترتیب معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ میرے پاس دو کروڑ دس لاکھ مفرد اعداد ہیں جو میں نے خود معلوم کیئے ہیں۔ میرا ارادہ ہے کہ ان کی تعداد میں اضافہ کروں۔

مفرد اعداد کو انٹرنیٹ سے بھی ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے لیکن میری ان سے تسلی نہیں ہوتی۔ میں جاہتا ہوں کی جن مفرد اعداد سے میں کھیلوں، وہ میری طرف سے ثابت شدہ ہوں کہ یہ مفرد اعداد ہیں۔  

اس مضمون کا مقصد: میں نے سوچا کہ مفرد اعداد کے درمیان فرق کی مقدار کیا ہوگی اور کیا ان میں کوئی ترتیب وغیرہ ہوگی۔ میں نے اپنے ساتھ موجود دوکروڑ مفرد اعداد میں فرق معلوم کیا اور اس کے نتائج کچھ ایسے ہیں:

Num Diff Num Diff Num Diff Num Diff Num Diff
101 2 151 6 199 12 263 6 317 14
103 4 157 6 211 12 269 2 331 6
107 2 163 4 223 4 271 6 337 10
109 4 167 6 227 2 277 4 347 2
113 14 173 6 229 4 281 2 349 4
127 4 179 2 233 6 283 10 353 6
131 6 181 10 239 2 293 14 359 8
137 2 191 2 241 10 307 4 367 6
139 10 193 4 251 6 311 2 373 6
149 2 197 2 257 6 313 4 379 4

اوپر چند مفرد اعداد اور ان کے ردمیان فرق بتائے گئے ہیں۔ ہر عدد کے سامنے اس عدد اور اس سے اگلے عدد کے درمیان فرق لکھا گیا ہے۔

نیچھے ان فرقوں میں کا ایک جائزہ دیا گیا ہے۔

Difference Count Percentage Difference Count Percentage
6 2,624,351 12.4969 26 452,574 2.1551
12 1,893,381 9.0161 42 364,206 1.7343
10 1,489,403 7.0924 34 283,775 1.3513
4 1,486,021 7.0763 32 270,425 1.2877
2 1,485,320 7.0730 40 250,083 1.1909
18 1,395,017 6.6429 48 216,101 1.0291
8 1,153,248 5.4917 38 212,703 1.0129
14 1,039,320 4.9491 54 150,757 0.7179
24 964,987 4.5952 44 147,634 0.7030
30 868,226 4.1344 60 132,865 0.6327
16 773,172 3.6818 46 126,080 0.6004
20 749,688 3.5699 50 121,797 0.5800
22 646,979 3.0809 52 90,747 0.4321
28 492,397 2.3447 56 76,777 0.3656
36 458,374 2.1827 66 76,068 0.3622

اوپر ٹیبل میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چھ کا فرق سب سے زیادہ آیا ہے، بارہ فیصد سے زیادہ۔ اس کے بعد بارہ کا فرق اور اس کے بعد دس کا فرق۔ ایسے مفرد اعداد کے درمیان دو کا فرق سات فیصد آیا ہے۔

 

بدھ, اگست 21, 2019

مودی سرکار کے احمقانہ اقدام سے کشمیر اک بار پھر فلیش پوائنٹ بن گیا۔ ۔۔۔اشاعت : ٹی این این نیوز۔ https://www.tnn.com.pk/urdu/blog/96643/


بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 جموں و کشمیر کو دیگر انڈین.    ریاستوں کے مقابلے میں قدرے زیادہ خودمختاری دیتا تھا اور یہ وہی شق تھی جس کی بنیاد پر جموں و کشمیر کے مہاراجہ نے ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھ کیا تھا۔ حال ہی میں جب بھارت حکومت نے آئین میں صدارتی حکم نامے کے تحت جموں و کشمیر کی خودمختاری سلب کرنے کی کوشش کی تو بہت سے حلقوں میں اس اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔ بہت سے ماہرین نے اسے مسئلہ کشمیر جو بہت عرصے سے اقوام متحدہ کے سرد خانےمیں پڑا ہوا تھا کے حل کے لیے شدید دھچکا قرار دیا مگر میری ناقص رائے اور فہم کے مطابق یہ قدم بھارت میں برسرِ اقتدار پارٹی کی طرف سے ایک نہایت احمقانہ قدم تھا جس سےجموں و کشمیر پر بھارت کی گرفت کمزور اور مسئلہ کشمیر دوبارہ سے عالمی سطح پر اجاگر ہو کر عالمی سطح پر خبروں کی زنیت بن گیا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو اس بھارتی اقدام سے بہلے بھارت اس  مسئلے کو عالمی سطح پر پس پشت ڈالنے میں کامیاب ہو گیا تھا، بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے مگر جب عالمی برادری کشمیر میں بھارتی اقدامات کو جب دیکھتی یا سنتی ہے تو وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتی ہے۔

بہت سی عالمی تنظیموں اور خبر رساں اداروں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے بھی بھارتی اقدامات کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے بھارتی صدارتی حکم نامے  اور اس کے نتجے میں کیے گئے ظالمانہ اقدامات نے اس مسئلے کو دوبارہ فلیش پوائنٹ بنا دیا اور جیسا کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ 50 سالوں میں یہ پہلی بار ہے کہ مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سب سے اعلیٰ سفارتی فورم پر زیر بحث لایا گیا ہے۔

یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ بھارت کے حالیہ احمقانہ اقدامات ہی کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کئی دہائیوں کے بعد دوبارہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زیر بحث لایا گیا۔ دنیا بھر کے مختلف خبر رساں اداروں نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے حوالے سے کوریج کی اور جنوبی ایشیاء کے اس حل طلب مسئلہ کا ذکر بار بار کیا گیا۔

اس موقع پر سلامتی کونسل کے 15 اراکین نے بند کمرے کے اجلاس میں کشمیر کے مسئلے پر بحث کی اور مسئلے کے پُرامن حل پر زور دیتے ہوئے دونوں فریقین پاکستان اور انڈیا کو اپنے مسائل باہمی طور ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔

اگر ہم پچھلی چند دہائیوں کا مطالعہ کریں تو اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو نہ صرف مغربی ممالک بلکہ مسلم امہ کی جانب سے بھی مسلسل نظر انداز کیا گیا جس کی محتلف وجوہات ہیں جن میں سے اقتصادی وجوہات سرفہرست ہیں۔

بعض ماہرین کی نظر میں بھارت کے ساتھ بیشتر ممالک کے اقتصادی روابط ہیں جس کی وجہ سے وہ دبے الفاظ میں مسئلہ کشمیر کے حل کی بات تو کرتے جس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے مگر اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے فورم پر کم ازکم کشمیر کو ایک مسئلہ تو قرار دیا گیا ہے۔

اگر دیکھا جائے تو بظاہر مسئلہ کشمیر پر سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکلیں گے مگر اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس اجلاس پر دنیا بھر کی نظر لگی ہوئی تھیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس تناؤ سے دنیا کو یہ پیغام بھی واضح ہو رہا ہے کہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ کے خطرات آج بھی مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ساری دنیا کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔

مودی سرکار کے احمقانہ اقدام سے کشمیر اک بار پھر فلیش پوائنٹ بن گیا - https://www.tnn.com.pk/urdu/blog/96643/

جمعہ, اگست 16, 2019

تبدیلی اور منگو کوچوان۔.........۔اشاعت:- ٹی۔این۔این 15 اگست 2019...... https://www.tnn.com.pk/urdu/blog/96359/

سعادت حسن منٹو مرحوم “نیا قانون” نامی اپنے ایک افسانے میں تقسیم ہند سے قبل انگریز سرکار کے بنائے ہوئے قانون (گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ) اور ایک سادہ لوح کوچوان کا ذکر کرتے ہیں، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ منظور تو اگست 1935 میں ہی ہو گیا تھا مگر اس کا باقاعدہ اطلاق یکم اپریل 1937 کو کیا گیا تھا۔
افسانے کا مرکزی کردار، سادہ لوح اور ان پڑھ کوچوان منگو، بظاہر تو پڑھا لکھا نہیں ہوتا مگر ہندوستان کے حالات کی خبر ضرور رکھتا ہے، منگو کی ملکی معاملات سے باخبر رہنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ وہ سواریاں ہوتی ہیں جو اس کے تانگے میں سفر کرتے ہوئے ہندوستان کے اور معاملات کو زیر بحث لاتی ہیں اور پھر یہی سیاسی اور حالات حاضرہ کی باتیں وہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق آگے اپنے دوستوں سے بیان کرتا ہے۔
ایک دن وہ کسی سواری سے 1935 کے قانون کے نفاذ کے بارے میں سنتا ہے جس سے وہ اپنی فہم کے مطابق یہی مطلب لیتا ہے کہ 1935 ایکٹ کے نفاذ کے بعد سب کچھ بدل جائے گا، ہندوستان کے باشندوں کو گوروں کے برابر یکساں حقوق حاصل ہو جائیں گے اور اس نئے قانون کے نفاذ سے ہندوستان میں آزادی کا ایک نیا دورشروع ہو جائے گا۔
آخر کار وہ خاص دن بھی آتا ہے جس دن منگو نے نئے قانون کے نفاذ کا سن رکھا تھا، اس دن منگو نے آزاد فضاؤں میں سانس لینا تھا، اس کے خیال میں سب کچھ بدل گیا ہو گا اور وہ گورے انگریز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے گا، اسی غلط فہمی میں وہ انگریز سپاہی سے لڑ پڑتا ہے اورسیدھا جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ جاتا ہے جہاں پر اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ تبدیلی اور آزادی کا جو خاکہ اس کے ذہن میں تھا وہ اس کی غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں تھا۔
اگر آج بھی کسی کو یہ لگتا ہے کہ ہم ( ہم سے مراد تیسری دنیا کی بے شعور عوام) بڑی بڑی سرمایہ دار ریاستوں / افراد / پارٹیوں کے تسلط سے آزاد ہیں اور تبدیلی آگئی ہے تو اس کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ کوئی نیا قانون لاگو نہیں ہوا ہے اور اگر کوئی تبدیلی آئی بھی ہے تو وہ صرف ہمارے آقاؤں کی تبدیلی ہے۔
آسان زبان میں اب ہم ایک آقا کی غلامی سے دوسرے آقا کی غلامی میں باعزت طریقے سے تشریف لاچکے ہیں۔ بسا اوقات غریب اور پسماندہ عوام کو نئے آقا کی آواز ذرا سریلی سی لگتی ہے مگر درحقیقت وہ نیا آقا بھی پچھلے آقا کی طرح ایک موقع شناس اور اپنی طاقت کو مزید دوام بخشنے کے چکر میں ہوتا ہے۔
آج بھی ایشیاء اور افریقہ کے بیشتر ممالک کے عوام حکمران کی تبدیلی کو ہی اپنی خوشحالی کا ضامن سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک کسی ملک کے باشندوں کی سوچ میں بنیادی تبدیلیاں نہیں آئیں گی تو ملک کے حالات تبدیل نہیں ہونگے مثلاً اگر کوئی ملک ٹیکس کے حوالے سے نہایت عمدہ قوانین بنا بھی لے مگر جب تک معاشرے میں ٹیکس کے حوالے سے مثبت سوچ نہیں ہو گی اور لوگ ٹیکس دینا اپنا قومی فریضہ نہیں سمجھیں گے تو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر امریکہ نے جرمنی اور جاپان جیسے ممالک کو بھی قرضے دیے جبکہ پاکستان اور مصر جیسے ترقی پذیر ممالک کو بھی قرضے دیے گئے اور نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے۔ جاپان اور جرمنی کب کے پھر سے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں کیونکہ ان کے لوگوں کی شعوری سطح شعور مثبت اور بلند تھی۔
میری ناقص رائے کے مطابق اگرکسی ملک کو عالمی سامراجی قوتوں سے نجات حاصل کرنا ہے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں لوگوں پر سرمایہ کاری کرے اور لوگوں کو باشعور بنائے تاکہ وہ، وہ حقیقی لیڈرشپ منتخب کر سکیں جو ملک کے بنیادی مسائل پر توجہ دے۔

جمعرات, اگست 15, 2019

تیسری دنیاکےمنگوکوچوان اورتبدیلی نماآزادی۔۔۔۔۔ اشاعت:- 15 اگست 2019 مکالمہ۔۔ https://www.mukaalma.com/75652/

سعادت حسن منٹو مرحوم کا افسانہ “نیا قانون” ایک ا
آخر کار منگو کوچوان کا وہ خاص دن بھی آتا ہے جس دن اس نے نئے قانون کے نفاذ کا سن رکھا تھا۔ اس دن منگو نے آزاد فضاؤں میں سانس لینا تھا۔ اس کے خیال میں سب کچھ بدل گیا ہو گا اور وہ گورے انگریز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے گا۔ اسی غلط فہمی میں وہ انگریز سپاہی سے لڑ پڑتا ہے اورسیدھا جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ جاتا ہے۔ جہاں   اس کو معلوم ہوتا ہے کہ تبدیلی اور آزادی کا جو خاکہ اس کے ذہن میں تھا وہ اس کی غلط فہمی کے سوا کچھ اور نہ تھا۔
اگر آج بھی کسی کو یہ لگتا ہے کہ ہم ( ہم سے مراد تیسری دنیا کی بے شعور عوام) بڑی بڑی سرمایہ دار ریاستوں / افراد / پارٹیوں کے سامراج سے آزاد ہیں اور تبدیلی آگئی ہے تو ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ کوئی نیا قانون لاگو نہیں ہوا ہے اگر کوئی تبدیلی آئی ہے تو وہ صرف ہمارے آقاؤں کی تبدیلی ہے اب ہمارے آقا اور وہ پیچیدہ جال تبدیل ہو چکے ہیں۔ آسان بھاشا میں اب ہم ایک آقا کی غلامی سے دوسرے آقا کی غلامی میں باعزت طریقے سے تشریف لاچکے ہیں۔ بسا اوقات غریب اور پسماندہ عوام کو نئے آقا کی آواز ذرا سریلی سی لگتی ہے مگر درحقیقت وہ نیا آقا بھی پچھلے آقا کی طرح ایک موقع شناس اور اپنی  طاقت کومزید دوام بخشنے کے چکرمیں ہوتا ہے۔ آج بھی ایشیاء اور افریقہ کے بیشتر ممالک کے عوام ایک حکمران کی تبدیلی کو اپنی خوشحالی کا ضامن سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک کسی ملک کے باشندوں کی سوچ میں بنیادی تبدیلیاں نہیں آئیں گی تو ملک کے حالات تبدیل نہیں ہونگے مثلاً اگر کوئی ملک ٹیکس کے حوالے سے نہایت عمدہ قوانین بنا لے مگر جب تک معاشرے میں ٹیکس کے حوالے سے مثبت سوچ نہیں ہو گی اور لوگ ٹیکس دینا اپنا قومی فریضہ نہیں سمجھیں گے تو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔ اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر امریکہ نے جرمنی اور جاپان جیسے ممالک کو بھی قرضے دیئے جبکہ پاکستان اور مصر جیسے ترقی پذیر ممالک کو بھی قرضے دیئے گئے اور نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے۔ جاپان اور جرمنی پھر سے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو گئے، کیونکہ ان کے لو گوں کی  شعوری سطح پہلے  سے مثبت اور بلندتھی۔ میری ناقص رائے کے مطابق اگرکسی بھی ملک کو عالمی سامراجی قوتوں سے نجات حاصل کرنی ہے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں لوگوں پر سرمایہ کاری کریں اور لوگوں کو باشعور بنائیں تاکہ وہ حقیقی لیڈرشیپ منتخب  کر کے ملک کے بنیادی مسائل پر توجہ دے۔
https://www.mukaalma.com/75652/کہانی ہے جس میں وہ تقسیم ہند سے قبل انگریز سرکار کے بنائے ہوئے قانون (1935 گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ) اور ایک سادہ لوح کوچوان کا ذکرکرتا ہے ۔ 1935 گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ منظور تو اگست 1935 میں ہی ہو گیا تھا مگر اس کا باقاعدہ اطلاق یکم اپریل 1937 کو کیا گیا تھا۔ اس افسانے میں مرکزی کردار ایک سادہ لوح اور ان پڑھ کوچوان منگو کا ہے۔ منگو کوچوان بظاہر تو پڑھا لکھا نہیں ہوتا مگر ہندوستان کے حالات کی خبر ضرور رکھتا ہے۔ اس کے ملکی معاملات سے باخبر رہنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ وہ سواریاں ہوتی ہیں جو منگو کے تانگے میں سفر کرتے ہوئے ہندوستان کے  دیگر معاملات کو زیر بحث لاتی  ہیں۔ یہی سیاسی اور حالات حاضرہ کی باتیں وہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق آگے اپنے دوستوں کو بیان کرتا ہے۔ ایک دن وہ کسی سواری سے 1935 کے قانون کے نفاذ کے بارے میں سنتا ہے۔ جس سے وہ اپنی فہم کے مطابق یہی مطلب لیتا ہے کہ 1935 ایکٹ کے نفاذ کے بعد سب کچھ بدل جائے گا اور ہندوستان کے باشندوں کو گوروں کے برابر یکساں حقوق حاصل ہونگے۔اور اس نئے قانون کے نفاذ سے ہندوستان میں آزادی کا ایک نیا دورشروع ہو جائے گا۔
نوٹ:- اس کالم میں پیش کردہ رائے ایک عمومی اور ذاتی رائے ہے جس کی کسی شخص ، پارٹی یا ملک سے مشابہت محض اتفاق ہو گا ۔

DA NAN SAWAL-40

  پروگرام : دا نن سوال / آج کا سوال ( نشر مکرر) موضوع : یوم پاکستان (پشتو زبان میں ) مہمان: پرنسپل / لیث محمد - ( محکمہ ابتدائی و ثانوی ...