جمعہ, اگست 30, 2019

مت قتل کرو آوازوں کو



میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازؔ​
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا​

احمد فرازؔ​

جی ہاں صحرائے محبت کے  اس مسافر کا سفر 25 اگست 2008 کو اپنے احتتام پر پہنچا۔  احمد فراز  12 جنوری، 1931ء کو  خیبر پختونخوا کے شہرکوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ ' تھا۔  بلاشبہ احمد فراز ایک عہد کا نام ہے جسے چند سطور، لفظوں یا کتابوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے مگر ان کے حوالے سے یہ بات واضح کرتا چلوں کہ شاید وہ واحد شاعر ہیں جو اپنی زندگی میں ہی رومانوی اور انقلابی دونوں اقسام کی شاعری میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ میری رائے میں فراز کی شاعری ایک ایسا آئینہ ہے  جس میں بیک وقت ہمیں ہماری ذات کا رومان اور ہمارے معاشرے  کی حقیقی تصویر نظر آتی ہے۔ آج احمد فراز کی ایک خوبصورت نظم آپ کی سماعتوں کی نظر کرتا ہوں۔ یہ نظم ہر اس آواز کیلئے جسے ظالم دبانے کی کوشش کرتا۔ یہ آواز کبھی جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کی ہوتی تو کبھی ان معصوم بچوں کی جن کو زیادتی و درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا جاتا ہے،  اس آواز کے لئے آواز بلند کرنا ہم سب پر فرض ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مت قتل کرو آوازوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو

ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو

اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو

ہم پالنہار ہیں پھولوں کے
ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے ہو
ہم پیار سکھانے والے ہیں

اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے
جب حرف یہاں مر جائے گا
جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی
جب شعر سفر کر جائے گا

جب قتل ہوا سر سازوں کا
جب کال پڑا آوازوں کا

جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں

جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے​

(احمد فراز)​
ساجد محمود خان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

DA NAN SAWAL-40

  پروگرام : دا نن سوال / آج کا سوال ( نشر مکرر) موضوع : یوم پاکستان (پشتو زبان میں ) مہمان: پرنسپل / لیث محمد - ( محکمہ ابتدائی و ثانوی ...