بدھ, اپریل 22, 2020

سازشیں جب شمار کرنا ‏

پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ دماغ ہوتوسوچاں ای سوچاں،نہ ہوتوموجاں ای موجاں، جس کا مطلب ہے کہ اگر آپ کے پاس دماغ ہو تو سوچیں ہی سوچیں ہونگی اور اگر نہ ہو تو مزے ہی مزے ہیں۔  اسی طرح میرے خیال میں اگر کسی کے پاس مناسب علم نہ ہو تو پھر ہر طرف سازشیں ہی سازشیں نظر آئیں گی۔ ہر انسان میں اپنےاردگرد کے ماحول کو سمجھنے اور اس کے بارے میں سوچنے کی جستجو اور تجسس ہوتی ہے۔  اسی تجسس کی پیاس بجھانے کے لئے وہ محتلف لوگوں کی وضاحتوں اور نظریات کو سنتا ہے اور صرف اس سادہ سی وضاحت کو ہی درست تسلیم کرتا ہے جو کہ اس کی فہم و فراست کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور جو آسانی سے سمجھ میں اجاتی ہے۔ مثلآ کسی چھوٹے بچے کو سمجھانے کے لیے ہم ایک نہایت ہی سادہ وضاحت پیش کرتے ہیں اور اگر وہی بات کسی نوجوان کو سمجھانے کے لئے تفصیل سے پیش کی جاتی ہے۔ 

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے نوجوان اور بزرگ سائنس کے پیچیدہ سے پیچیدہ عوامل اور محرکات کو مناسب طریقے سے سمجھتے نہیں ہیں لیکن ان کو بڑی آسانی اور اعتماد سے پیش کرتے ہوئے عجیب وغریب قسم کے سازشی نظریات سے ان کا تعلق بنا دیتے ہیں ۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سی اہم اور سنجیدہ باتوں کو بغیر تصدیق کے آگے بیان کرتے اور لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔  مجھے اچھی طرح یاد ہے ہے جب راقم اسلام آباد کی ایک سرکاری درسگاہ میں  اپنی ماسٹر ڈگری کے لیے زیر تعلیم تھا تو اس وقت کے ہمارے  ایک گورے پروفیسر صاحب جن کا تعلق کینیڈا سے تھا انہوں نے ہماری پوری کلاس کو ڈرون حملوں کے حوالے سے ایک اسائمنٹ لکھنے کے لئے کہا۔   جب وہ اسائنمنٹ تمام طلباء  نے جمع کرادی تو گورے پروفیسر صاحب ان تمام اسائمنٹس کو پڑھنے کے بعد کچھ یوں گویا ہوئے کہ دنیا کے کم و بیش ہر ملک  میں سازشی نظریات پائی جاتیں ہیں مگر مجھے تو حیرانگی ہوئی کہ ہر طالب علم کی ڈرون حملوں کے متعلق اپنے اپنے عجیب و غریب قسم کے سازشی نظریات ہیں۔ ان نظریات کی روشنی میں ڈرون حملوں کے پیچھے یہودیوں کی سازش ہے، ڈرون حملے بھارت کی شرارت ہے، ڈرون حملے امریکہ کی طرف سے کیے جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔  یعنی کہ جتنی منہ اتنی باتیں کے مصادق جتنے طلباء اتنے ہی سازشی نظریات قلمبند کیے گئے تھے۔ ہمارے معمر گورے پروفیسر صاحب کی تو ہمت تھی کہ وہ تمام طلباء کی سازشی نظریات سے بھرپور اسائمنٹس پڑھ لیا کرتے تھے مگر ہمیں تو بنفس نفیس لوگوں سے ان کے غیر سنجیدہ اور بے ربط سازشی نظریات سے بھر پور خیالات زبردستی سننے پڑ جاتے ہیں۔ جن کو سن کر بیک وقت ہنسنا بھی آتا ہے اور رونا بھی آتا ہے۔ وہ بے ربط مگر ایک کمزور منطق سے مربوط سازشی نظریات فضول وقت گزارنے اور اپنی قوت برداشت بڑھانے کے لیے نہایت مفید ہیں۔

اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے یے تو بازار میں کئ دنوں سے کرونا وائرس کی وباء کے حوالے سے سینکڑوں سازشی نظریات گردش کر رہی ہیں۔  ان سازشی نظریات کے پھیلانے والوں میں اچھے خاصے سے پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اپنے حصے کی شمع روشن کر رہے ہیں۔ اس مختصر سے کالم میں ممکن تو نہیں کہ کرونا وائرس سے متعلق ان سازشی نظریات کی کو فرداً فرداً تفصیل سے بیان کیا جائے مگر چند ایک سازشی نظریات بیان کرتا چلوں جو راقم کی سماعتوں کی نظر ہوئی ہیں۔ ان سازشی نظریات میں ایک نظریہ تو یہ پیش کیا جاتا ہے کہ یہ کرونا وائرس دنیا میں 5 جی ٹیکنالوجی کو متعارف کروانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔کچھ لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ کرونا وائرس کو دنیا میں موجودہ ورلڈ آرڈر کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ( ایسے لوگوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ ورلڈ آرڈر کیا ہے )۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ اس وائرس کے ذریعے مذہبی یا ثقافتی اطوار کو بدلنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کچھ۔ لوگ اسے روس کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ 

ہمیں تو اس لفظ سازش اور امریکہ سے اتنی محبت ہو گئی ہے ہے کہ اب ہمیں وطن عزیز میں میں آنے والی قدرتی آفات جیسے زلزلوں اور  سیلابوں میں بھی امریکہ کی سازشیں نظر آتی ہے ہمیں امریکہ کی امداد سے شدید محبت  اور امریکہ کی سازشوں سے شدید نفرت ھے ہے جس کا ذکر ہم وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔  اس محبت اور سازشوں کے جذباتی کھیل میں کھبی ہم پر امریکہ کی محبت تو کبھی اس کی سازش غالب آجاتی ہے۔ ہم ان سازشی نظریات کی محبت میں آتا آگے نکل گئے ہیں کہ کبھی کبھی ہم اپنی حکومت کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر ہمیں حق اور سچ کا بول بالا کرنا ہے تو ہمیں ان سازشی نظریات کی گنتی اور محبت ترک کرنی ہونگی اور اپنی حکومت اور اداروں پر اعتماد کرنا ہو گا ورنہ بس پھر وہی بات کہ 
"محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا"

http://www.dailypaighamat.com/4.html

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

DA NAN SAWAL-40

  پروگرام : دا نن سوال / آج کا سوال ( نشر مکرر) موضوع : یوم پاکستان (پشتو زبان میں ) مہمان: پرنسپل / لیث محمد - ( محکمہ ابتدائی و ثانوی ...