بدھ, اپریل 15, 2020

......موسمیاتی تبدیلی کا مقدمہ تیسری دنیا میں......

            پشتو کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ ایک بندہ بستر مرگ پر بھوک سے مر رہا اور دوسرا شخص اس کے سراہنے گھی میں تلے ہوئے پراٹھے ڈھونڈ رہا ہے۔ عالمی سطح پر بہت سے مسائل اور ان کے حل کے لیے اقدامات پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک  بھوک سے مر رہے ہیں اور امیر ممالک ان کے پاس دیسی گھی میں تلے پراٹھے ڈھونڈ رہے ہیں۔  کچھ اسی طرح کی صورت حال غریب ممالک میں موسیمیاتی تبدیلیوں کی پالیسیوں  کی بھی ہے   جہاں لوگ بھوک  وافلاس کی زد میں ہیں اور امیر ممالک  یعنی ترقی یافتہ ممالک ان سے موسیمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھانے پر زور دے رہے ہیں۔ مگر ان غریب ممالک کی ترجیحات میں خوراک کی کمی کو پورا کرنا، اسلحے کی دوڑ میں شامل ہونا ، بنیادی انفرسٹرکچر بنانا  جیسی ضروریات شامل ہیں۔  اب یہ  لوگ اسلحہ چھوڑ کر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات   تیسری دنیاکی اکثر ممالک کو بہت سے عالمی مسائل کا سامنا ہےجن میں موسمیاتی تبدیلی نہایت اہمیت کا حامل ہے مگر ستم یہ  ہے کہ ان ترقی پذیر ممالک کوموسمیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والے مسائل کی شدت کا صیح طرح ادراک بھی نہیں ہے بدقسمتی یہ بھی ہے کہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک اس مسئلے کی اگاہی کے باوجود بھی اپنے حصے کی شمع جلانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثر بھی زیادہ تر غریب ممالک ہونگے جس کا ذکر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔   موسمیاتی تبدیلیوں پرآگاہی سیمینارسے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب  کے  وزیرماحولیات  نے  بھی کہا تھا   کہ موسمیاتی تبدیلیاں اوران کے اثرات دہشت گردی کے بعد سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ مگر  عالمی سطح پر  ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے  اقدامات نا کافی ہیں۔
   یہاں یہ سوال  نہایت اہم ہے کہ ریاستیں اپنے وسائل صیح طرح استعمال کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے اپنے وسائل بروئے کار کیوں نہیں لاتیں  ہیں؟   اس سوال کا جواب  ترقی یافتہ   ریاستوں اور ترقی پذیر  ریاستوں میں موجود  ذمہ داران اپنی اپنی فہم و فراست کے مطابق دیتے ہیں۔ اگر دیکھا  جائے تو عام لوگوں میں   اس سلسے میں دو  متضاد  رائے پائی جاتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی صدیوں سے  ہونے والا ایک ایسا قدرتی عمل ہے جسے روکنے کے لیے انسان   بے بس اور لاچار ہے ۔  دوسری رائے رکھنے والے لوگوں میں ایسے سنجیدہ لوگ ہیں جن کی نظر میں ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے  لیے انسان خاطر خوا اقدامات کر سکتاہے کیونکہ  ماحولیاتی مسائل کاذمہ دار انسان خود ہے۔
یہاں یہ سوال نہایت اہم ہے کہ اگر  موسیمیاتی تبدیلی کا مسئلہ اتنا  ہی شدید اور گھمبیر ہے  تو ریاستیں  اپنے وسائل کا صیح استعمال کرنے ہوئے موسیمیاتی تبدیلیوں کے برے اثرات سے بچنے کے لیے  ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیوں نہں اٹھاتیں ؟  اس  سوال کا  ایک سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ   اس مسئلے پر ہر ریاست اپنے اپنے فہم وفراست  کے مطابق اقدامات اتھاتی ہے  ، مگر ایک بات بہت واضح ہے کہ جو ریاسیتں بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کی زد میں ہیں  وہ اس مسئلے کے لیے سنجیدہ ہیں  اور انھیں اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک ہے۔ سب سے پہلے تو  لوگ  موسیمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات  ماننے کو ہی تیار ہی  نہیں ہیں اور  عام طور پر بہت سے لوگوں  میں  ماحولیاتی تبدیلیوں پر دو رائے پائی جاتی ہیں۔  ایک رائے تو ان لوگوں کی ہے جن کے خیال میں  گلیشیئر کا تیزی سے پگھلنا ، درجہ حرارت میں اضافہ ، موسمی تغیرات وغیرہ صدیوں سے چلا آرہا ایک قدرتی عمل ہے اورانسانی کوششوں سے اس پر کوئی خاص  فرق نہیں پڑ سکتا ہے۔  دوسری  قسم کی رائے رکھنے والے لوگوں کے مطابق موسیمیاتی   تبدیلی انسان کی طرف سے دنیا  میں  غیر دانشمندانہ  عمل دخل کا نتجہ ہے۔  بخثیت اشرف المخلوقات یہ بات نہایت افسوس ناک ہے کہ  انسان نے بیشتر مسائل بشمول عالمی امن کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں وہاں موسیمیاتی تبدیلیوں سے نمٹے  کے لیے مختلف آراء اور ترجیحات پائی جاتی ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ اس مسئلے پر اقدامات اٹھانے کے حوالے سے  نہ صرف سیاستدانوں بلکے پڑھے لکھے دانشواروں میں بھی ایک واضح اختلاف پایا جاتا ہے۔  عالمی سطح پر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے نہ صرف ترقی یا فیہ بلکے تیسری دنیا کے غریب ممالک کو بھی اپنی سوچ اور ترجیحات کو بدلنا ہو گا  وگرنہ ایک کرونا کے عالمی مسئلے  سے لڑتے لڑتے دوسرے  دوسرے عالمی مسائل سے مخاذ جنگ نہ کھل جائے۔ 
یہ ہُجومِ شہرِ ستمگراں نہ سُنے گا تیری صدا کبھی
 مری حسرتوں کو سُخن سُنا مری خواہشوں سے خطاب کر

http://www.dailypaighamat.com/4.html

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

DA NAN SAWAL-40

  پروگرام : دا نن سوال / آج کا سوال ( نشر مکرر) موضوع : یوم پاکستان (پشتو زبان میں ) مہمان: پرنسپل / لیث محمد - ( محکمہ ابتدائی و ثانوی ...