منگل, مارچ 12, 2019

عالمی سیاست اور ہماری سوچ




عالمی سیاست میں بظاہر تمام ریاستں برابر اور  حود محتار ہوتی ہیں۔ لیکن اس بات کو سمجھنا بہت


ضروری ہے کہ تمام ریاستں معاشی، سیاسی، دفاعی اورمعاشرتی طورپرایک طرح سے نہیں ہوتیں۔ عالمی سیاست میں ذاتی مفاد کسی بھی ریاست کے لیے سب سے بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔  عالمی سیاست میں مذھب، اخلاقیات، رشتے وغیرہ کی کوئی اھمیت نیہں ہوتی۔ ریاستوں کو تو عشق ہوتا ہے نہ ہی وہ کسی کے پیار میں مبتلا ہوتیں ہیں۔ عالمی ریاستیں جب ایک دوسرے سے کسی بھی قسم کی معاملات طے کرتے وقت اُس ریاست کی قد کاٹ کو اُس کی معاشی، سیاسی، دفاعی طاقت کو ملحوظ         رکھا جاتا ہے۔ مثلا اگرکسی بھی عالمی مسئلے پربحث کرناہویا اُس کا حل تلاش کرنا ہو تواُس میں بڑی طاقتوں اور اہم ممالک کو بُلایا جائے گا۔  اگر دُنیا کے کسی بھی حصےمیں کوئی بھی مسئلہ ہوتو بڑی طاقتیں ہی فصیلہ کرتی ہیں کہ اس مسئلے کا حل کیا ہو گا۔

اب اصل مسئلے کی طرف آتے ہیں۔ اول بات تو یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہماری عوام کی اکثریت امریکہ، روس ، یورپ کو اپنا دُشمن سمجھتے ہیں اور پھر ان دشمنوں کو مختلف عالمی معاملات میں اپیل اور گزارشات بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اور کچھ غیرت مند تو دھمکیاں تک دے رہے ہو تے ہیں۔ ہماری عوام کو عراق ،شام ، یمن وغیرہ کے مسئلوں سے بہت زیادہ دُکھ اور تکلیف ہوتی ہے اور وہ بھر پور انداز میں عالمی طاقتوں کی مزاحمت بھی کرتے ہیں اور کبھی کبھی عالمی طاقتوں سے اپیل بھی کرتےہیں کہ فوری اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ ہماری عوام کو شاید یہ پتہ نہیں کہ دُنیا اور عالمی  طاقتوں کو ہماری کوئی پروا نہں کرتی چاہے ہم اپنے پورے ملک کو آگ لگا دیں اور اُلٹا لٹک جائیں۔ جب برصعیرکے مسلما نوں نے برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ سلطنت عثمانیہ کو تقسیم نہ کیا جائے، تو برطانیہ نے اپنے مفاد کو مد نظر رکھ کر وہی کیا جواُس کی قومی مفاد میں تھا۔ ایک وقت تھا جب پاکستان امریکہ کا لاڈلہ ہوا کرتا تھا اور امریکہ اپنے سرد جنگ کے لیے پاکستان کی مدد لیتا تھا۔ اُس وقت امریکہ پاکستان کو محتلف قسم کی امداد دیتاتھا اور چھوٹی موٹی مستیاں بھی برداشت کر لیتا تھا۔ مگر سرد جنگ میں اپنا مفاد پُورا کرنے کے بعد امریکہ اپنے موجودہ مفادات کو مدنظر رکھتا ہے۔ اب پاکستان کی ہنرمندان آئین و سیاست اور غیور عوام کویہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ کھوکلے نعروں اور زندہ باد اور مردہ باد سے نہ تو ہم کسی بھی مظلوم قوم کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہی ہم ظالم کا ہاتھ روک سکتے ہیں۔ جب تک ہمارا قد کاٹ عالمی برادری میں بڑھ نہیں جاتا تب تک ہماری کوئی آواز نہیں سُنے گا۔ ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہو گا اور اپنی معاشی اور سیاسی قد کاٹ کو بڑھانا ہواگا۔ ہمیں قرضہ لینا بند کرنا ہو گا۔ ہم دُنیا کو تب ہی ڈیکٹیٹ کریں گے جب ہم دُنیا کو کچھ دینے کے قابل ہو سکیں گے۔ اپنی موجودہ صورت حال کو دیکھ کر مجھے انگریزی کا وہ محاورہ یاد آتا ہے۔

"beggars can't be choosers

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

DA NAN SAWAL-40

  پروگرام : دا نن سوال / آج کا سوال ( نشر مکرر) موضوع : یوم پاکستان (پشتو زبان میں ) مہمان: پرنسپل / لیث محمد - ( محکمہ ابتدائی و ثانوی ...