ہفتہ, مارچ 30, 2019

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرپٹ سیاست دانوں کی پکڑ کیوں مشکل ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ عرصہ پہلے میں ایک انگریزی فلم دیکھ رہا تھا۔ اس میں ایک آدمی بہت دلچسپ بات کہتا ہے کہ اگر آپ کے پاس بہترین وکیل، بہترین اکاؤنٹنٹ اور بہترین پادری(یا مُلّا) ہوں تو دنیا میں کوئی بھی آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ 

میں اکثر وبیشتر دیکھتا ہوں کہ لوگ اس بات کا رونا  روتے ہیں کہ کرپٹ سیاست دانوں کو جیل میں عارضی بند کرنے کے بعد دوبارہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کیلئے  حکومت اور عدالتوں کو الزام دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے لوگ ہر مسئلے کو انتہائی سادہ نظر سے دیکھتے ہیں اور ہر مسئلے کا ایک سادہ اور آسان فہم حل چاہتے ہیں۔ ان کو ہر کہانی میں ایک عدد ہیرو اور ایک ولن چاہئے ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے دنیاوی معاملات اس قدر آسان نہیں ہوتے ہیں۔ کسی بھی ایک شعبے میں کام  والا دوسرے شعبے  کے معاملات آسانی سے نہیں سمجھ سکتا کیوں کہ ہر ایک شعبہ  کی اپنی اپنی پیچیدگیاں ہوتی ہیں، اور انسان ایک خاص حد تک ہی ان پیچیدگیوں کو سمجھ سکتا ہے۔

جیل سے رہا ہونے والے سیاست دانوں کی طرف آتے ہیں اگر آپ غور سے دیکھیں تو ایسے سیاست دانوں کو بہترین وکیلوں کی خدمات حاصل ہوتی ہیں۔ بہترین  وکیلوں کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہیں جس کی  ایک وجہ یہ ہے کہ وہ وکالت ، عدالت، اور پولیس کے شعبوں میں بہت ماہر ہوتے ہیں اور ان شعبوں میں ان کو طرح طرح کی خامیاں اور شارٹ کٹ معلوم ہوتے ہیں۔ ان وکیلوں کو ہر معاملے کو الجھانے کے ہزاروں طریقے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان وکیلوں کے ساتھ بہت بڑی ٹیمیں ہوتی ہیں جو کہ ان کیلئے مختلف عدالتی فیصلے ڈھونڈھتے ہیں اور ان کو عدالت میں دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر وہ وکیل اپنے گاہک یا کلائنٹ یا موکل کو رہا کرا دیتے ہیں تو ان کو بہت بڑے پیسے میلتے ہیں اور مستقبل میں اور بھی بڑے تگڑے گاہک آتے ہیں۔ 

ان گندھے سیاستدانوں کے معاملے کو ایک اور نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک مفکر کہہ رہا تھا کہ بلّی اور چوہے کے مقابلے میں اکثر چوہے کی جیت ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چوہا بہت زیادہ جذبات میں ہوتا ہے کیونکہ اس کو جانی نقصان کا خدشہ ہوتا ہے۔ اس میں اس کی جان چلی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف  بلّی زیادہ پروا نہیں کرتی کیونکہ اگر چوہا ہاتھ آئے تو تھوڑی سے عیاشی ہوجاتی ہے اور اگر ناکامی ہو تو کوئی خاص بات نہیں۔ 

کچھ اس طرح کا معاملہ ان ساستدانوں کا بھی ہے۔ اگر گندے سیاستدان صحیح طرح سے پکڑے گئے تو ان کی زندگی اور مستقبل تباہ ہوسکتی ہے۔ اس لئے ساستدان خود کو بچانے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر سرکاری وکیل کیس جیت جاتا ہے تو اس کی تنخواہ میں کچھ خاص اضافہ نہیں ہوتا جبکہ ناکامی کی صورت میں بھی اس کو اپنی تنخواہ باقاعدگی سے ملے گی۔

ان باتوں کا  ہرگز مقصد یہ نہیں ہے کہ ان کرپٹ سیاستدانوں کو کچھ نہیں کہا جاسکتا اور حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ ان باتوں کا مقصد یہ ہے کہ معاملات کی پیچیدگیوں کا تفصیل اور باریک بینی سے جائزہ لینا   ہوتا ہیں۔ ان کرپٹ سیاستدانوں کو سزا دینے کیلئے بہت سخت  محنت کی  ضرورت ہے۔ 

"If wishes were horses, beggars would ride" 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

DA NAN SAWAL-40

  پروگرام : دا نن سوال / آج کا سوال ( نشر مکرر) موضوع : یوم پاکستان (پشتو زبان میں ) مہمان: پرنسپل / لیث محمد - ( محکمہ ابتدائی و ثانوی ...