منگل, مارچ 12, 2019

عالمی یوم خواتین اور یکساں مواقع. ( اشاعت : روزنامہ آئین پشاور, 12 مارچ 2019۔)


دنیا کے بیشتر ممالک میں 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے. اس معاملے پر ہمارے معاشرے میں دو رائے پائی جاتی ہیں. ایک طرح کی رائے رکھنے والے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ عالمی یوم خواتین کو نہیں منانا چاہیئے، جبکہ دوسری رائے رکھنے والے لوگ وہ ہیں جو کہ اس دن کو بھرپور طرح سے منانے کے حق میں ہیں۔ اکثر انسان کی سوچ یا رائے کا غیر جانبدار ہونا تقریبا َ ناممکن ہے اسی لیے اکثر و بیشتر کسی بھی مسئلے پر آپ کو ایک سے زیادہ رائے رکھنے والے لوگ ملیں گے۔ کسی بھی جمہوری اور صحت مند معاشرے میں اختلاف رائے کا ہونا ایک عام سی بات ہے اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے ۔ جب بھی کسی تحریک میں ایسے لوگ شامل ہو جائیں جو اس کے بنیادی فلسفے اور مقاصد کو اراری یا غیر ارادی طور پر پس پشت ڈال کر غیر ضروری باتوں میں الجھ جاتے ہیں، تو تحریک کی ناکامی کا سبب بنتے ہیں۔ کسی بھی تحریک یا جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس میں شامل افراد دانائی اور حکمت کے ساتھ اپنے مقاصد اور طریقہ کار کا تعین کرتے ہوئے ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت بڑھتے جائیں اور غیر ضروری چیزوں سے اجتناب کریں۔ شائد کچھ اسی طرح کا ماجرا 8 مارچ 2019 کی عالمی یوم خواتین مارچ کے ساتھ بھی ہوا۔میں اُ ن نعروں یا پلے کارڈ کی تفصیل میں تو نہیں جاناچاہتا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ اُن میں بھی کچھ غیرضروری مسائل کی طرف نشاندہی کی گئی جو کہ اس تحریک کا حصہ نہیں ہونا چاہیے تھیں۔
میں اس دن کے منانے یا نہ منانے سے بالاتر ہو کر آپ لوگوں کے سامنے ایک سادہ سا سوال رکھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہمارے معاشرے میں عورتوں کو مردوں کی طرح یکساں معاشرتی اقتصادی اور سیاسی حقوق حاصل ہیں؟ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں بہت کم ایسی خواتین ہونگی جن کو مردوں کے مساوی یکساں معاشرتی اور اقتصادی اور سیاسی حقوق حاصل ہوں گے۔ اگر ہم صرف قانون وراثت کو ہی اٹھا کے دیکھ لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ خواتین کی اکثریت کو شریعت اور قانون میں مقرر کردہ وراثتی حق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ میری کم فہم رائے کے مطابق عالمی یوم خواتین کو کچھ اس طرح سے منانا چاہیے کہ اگر کو ئی خواتین کے حقوق کے حوالے سے کچھ اچھا کام کر رہاہے ہیں تو اس کو پذیرائی ملنی چاہیئے اور اگر کسی جگہ کوئی کوتاہی برتی جا رہی ہے تو اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہیں اور ان عناصر اور عوامل کی نشاندہی ہونی چاہیے جن سے خواتین کے ساتھ کسی بھی طرح کا امتیازی سلوک برتا جا رہا ہوں۔ اکثر مغربی معاشرے میں لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ایک مذہبی یا قدامت پسند معاشرے میں عورتوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جن لوگوں نے ایران کا سفر کیا ہو اور ان کے معاشرے میں خواتین کے کردار کا مشاہدہ کیا ہو تو وہ آپ کو بہتر انداز میں بتا سکتے ہیں کہ ایران میں خواتین کی ایک اچھی خاصی تعداد آپ کو محتلف شعبوں میں کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے، جہاں ان کے لیے یکساں مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ تقریباً ہر شعبے میں آپ کو خواتین کی نمائندگی نظر آئے گی ۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ جس کا نام وومن بزنس اینڈ لاء ہے ، اس رپورٹ کے مطابق دنیا میں صرف نصف درجن ممالک ایسے ہیں جن میں خواتین کو مساوی قانونی اور اقتصادی حقوق حاصل ہیں بدقسمتی سے ان ممالک کی فہرست میں کوئی ایک بھی مسلم مملکت نہیں ہے۔خواتین ہماری آبادی کا تقریبا نصف ہیں۔ ان کے کردار اور حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا عہد حاضر میں کوئی بھی معاشرہ خواتین کی شمولیت کے بغیر کسی بھی میدان میں ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کرسکتا۔
(۔ساجد محمود خان ۔)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

DA NAN SAWAL-40

  پروگرام : دا نن سوال / آج کا سوال ( نشر مکرر) موضوع : یوم پاکستان (پشتو زبان میں ) مہمان: پرنسپل / لیث محمد - ( محکمہ ابتدائی و ثانوی ...