پیر, مارچ 02, 2020

۔پنجاب کا مقدمہ سب کےلئے۔http://www.dailypaighamat.com/2.html

سب سے پہلے تو میں معزرت خواہ ہوں کہ یہ تحریر مجھے 21 فروری یعنی عالمی یوم مادری زبان کے دن تحریر اور شائع کرنی چاہیے تھی مگر ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں۔ ایک اور اہم بات یہ کہ میں اپنی کم علمی اور خاص طور پر علم لسانیات پر کمزور گرفت  کی وجہ سے ایسے موضوعات پر  لکھنے سے پرہیز کرتا ہوں جس سے میری  کسی مثبت تحریر یا پیغام کو کسی بھی حوالے سے متنازع تحریر یا پیغام کا درجہ حاصل ہو جائے۔ ہم اکثر ان معاملات پر بہت زیادہ توجہ نہیں دیتے جو ہم پر بلا واسطہ طور پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے اثرات بہت عرصہ بعد رونما ہونے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سانحہ بنگال کے عوامل میں زبان ایک اہم مسئلہ تھا جس نے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے لوگوں میں دوریاں پیدا کی تھیں۔

جب کبھی بھی علاقائی زبانوں بالخصوص پنجابی زبان سے وفا کا تذکرہ ہو گا تو محمد حنیف رامے کی کتاب ( پنچاب کا مقدمہ ) کا پیش لفظ ہمیں اپنی مادری زبانوں خاص کر پنجابی زبان سے پنجاب کے باشندوں کی بے وفائی اور چشم پوشی کی یاد ضرور دلاتا رہے گا۔ محمد حنیف رامے صاحب 1930ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔  آپ سیاستدان، دانشور، خطاط ، مصور، صحافی اور ایک ہمہ گیر شخصیت کی حامل انسان تھے۔  حنیف رامے صاحب کی مشہور کتاب ’’ پنجاب کا مقدمہ ‘‘ ہے جبکہ ان کی دیگر تصانیف میں اسلام کی روحانی قدریں، موت نہیں زندگی ، باز آؤ اور زندہ رہو (اداریوں کا مجموعہ) ، دُبِ اکبر اور نظموں کا مجموعہ دن کا پھول کے نام شامل ہیں۔  آپ چوہدری تھے مگر اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح اپنے نام کے ساتھ چوہدری کے بجائے رامے کا لاحقہ اختیار کیا اور پھر یہی ان کا تخلص بھی ٹھہرا تھا۔  محمد حنیف رامے مرحوم نے ”پنجاب کا مقدمہ“ کے موضوع پر اپنی کتاب اردو میں لکھی اور اس کی توجیح یہ پیش کی کہ انہیں یہ کتاب اردو میں اس لئے بھی لکھنا پڑی کیونکہ پڑھے لکھے پنجابیوں نے پنجابی زبان کو چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے پیش لفظ میں مزید لکھا کہ وہ اس دور کے کروڑوں پنجابیوں کو نہ صرف پنجاب کی عظمت  کیلئے بلکے پورے پاکستان کے استحکام اور یکجہتی کیلئے بھی جگا رہے ہیں۔ ان کی کتاب میں انھوں نے  پنجاب کے لوگوں کو مضبوط پاکستان کی خاطر پنجابیت سے جڑے رہنے کا مشورہ دیا ہے۔  انھوں نے مضبوط پاکستان اور پنجابیت کو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ”میرا ایمان ہے کہ پنجاب نے پنجابیت اختیار نہ کی تو وہ پاکستان کو بھی لے ڈوبے گا"۔  میری ذاتی رائے میں جب تک ہمارے وطن عزیز میں علاقائی زبانیں اور تقافت فروغ نہیں پاتا تب تک پاکستان مستحکم اور مضبوط نہیں ہو سکتا ہے۔  حنیف رامے صاحب اہل پنجاب کو ان کی خاموشی پہ جھنجھوڑتے ہوئے اہل پنجاب سے یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر وہ پاکستان کی بقإ چاہتے ہیں تو نہ صرف اپنی پنجابیت اختیار کرے بلکہ پوری عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر صوبائی خودمختاری کی جنگ بھی لڑے۔ 
جو بات اور نقطہ میں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ  ہے کہ علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی سے اردو زبان اور استحکام پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس سے سے اردو زبان اور ملکی اتحاد کو مزید استحکام ملے گا ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر علاقے کی اپنی ایک محصوص ثقافت ہوتی ہے جو اس علاقے کی زبان سے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ بہت سے الفاظ اور محاورے اس محصوص ثقافت کی بدولت وجود میں آتے ہیں۔ ان ہی نئے وجود میں آنے والے الفاظ میں سے بہت سے الفاظ بعد میں دوسری زبانوں میں منتقل ہو جاتے ہیں ہے۔ اس طرح ایک مخصوص ثقافت کا اثر دوسری ثقافت اور اس کی زبان پر پڑتا ہے۔ اگر یہی الفاظ کے تبادلے رک جائیں تو پھر زبان کمزور یا پھر مردہ ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں بہت سی علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں جن کے الفاظ آپ کو بہت سی دوسری زبانوں خاص طور پر اردو زبان میں ضرور نظر آئیں گے۔ پاکستان میں بولی جانے والی علاقائی زبانوں میں سندھی، پنجابی، پشتو ، بلوچی، کشمیری، سرائیکی، ہندکو، براہوی، گجراتی اور بعض دوسری علاقائی زبانیں بھی شامل ہیں۔ علاقائی زبانوں کے سوچ افکار نہ صرف قومی زبان کے دائرہ کار کو وسعت دینے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں بلکہ علاقے کے افراد کو قومی زبان سے قریب لانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمیں علاقائی زبانوں کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا اور ان کی ترقی و ترویج کے لئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے ہونگے ورنہ تو ایک پنجاب کے مقدمے کے بجائے ہمیں بہت سے علاقائی زبانوں کے مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا۔ اخر میں حنیف رامے مرحوم کی بات کو کچھ اضافے کے ساتھ مزید آگے بڑھاتے ہوئے اتنا ضرور کہوں گا کہ مضبوط پاکستان اور علاقائی زبانوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور اگر پاکستانیوں نے اپنی علاقائی زبانوں سے محبت اختیار نہ کی تو وہ پاکستان کی یکجہتی کو بھی لے ڈوبیں گے۔

جمعرات, فروری 20, 2020

(ماہی پروری اور روزگار کے مواقع۔ اشاعت روزنامہ آئین پشاور۔ 16 اپریل 2019)



پاکستان میں نوجوانوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصد ڈگری کا حصول ہے جو کہ ایک نوکری کی تلاش میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ بہت کم نوجوان اس غرض سے تعلیم حاصل کرتے ہیں یا پھر ایسے تدریسی شعبوں کا انتخاب کرلیتے ہیں جن کی مدد سے وہ انٹرپنورشپ یا اپنے ذاتی کاروبار کا آغاز کرسکیں۔ ماہی پروری یا تجارتی بنیادوں پر تالابوں میں مچھلیاں پالنے کی صنعت کو اس وقت دنیا میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس مقصد کے لئے ناکارہ سیم زدہ اور کلر زدہ اراضی بھی استعمال میں لائی جاسکتی ہے۔ جس تیزی سے انسانوں کی خوراک کی ضروریات بڑ رہی ہیں اسی تناسب سے ہمیں اپنے وسائل اور ذرائع کو بھی بڑھانا ہو گا۔ ماہی گیری ایک ایسی صنعت ہے جس سے ہمیں پروٹین سے بھرپور غذا آسانی سے دستیاب ہو سکتی ہے۔ ماہی گیری اور آبی وسائل کا مناسب استعمال نہ صرف تحفظ خوراک کی ضما نت ہے بلکہ روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔آج کے جدیددور میں ناموزوں شکاری آلات اور جس بے دریغ طریقے سے سمندروں اور دریاؤں میں مچھلیوں کا شکار جاری ہے تویہ خدشہ خارج از امکان نہیں کہ عنقریب ہمیں اس قیمتی قدرتی غذائی نعمت کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 
پاکستان کا تقریبا 814 کلو میٹر کا علاقہ ساحل سمندر پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں ماہی گیری کے کثیروسائل موجود ہیں۔ پاکستان کے صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی زیادہ تر آبادی کا انحصار ماہی گیری پر ہے، جو کہ روزگار کے ساتھ ساتھ آمدنی بڑھانے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہو سکتا ہے. 
صوبہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ کے آبی ذخائر زراعت کے ساتھ ساتھ ماہی پروری کے لیے بھی مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں. پاکستان کے شمالی علاقہ جات خاص طور پر ملاکنڈ ،ہزارہ اور سوات میں پانی کے وافر ذخائر ماہی پروری کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔ یہاں پرعموماً پانی کا درجہ حرارت 22 سنٹی گریڈ سے کم ہوتا ہے جو کہ قیمتی ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش کے لیے انتہائی موزوں ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ٹراؤٹ مچھلی کی پیداوار اب بھی بہت کم ہے۔ ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش نسل کی تاریخ قیام پاکستان سے بھی قبل کی ہے جب ملاکنڈ کے ایک انگریز افسر ایچ آر ہے نے 1930 میں ٹراؤٹ مچھلی کو پہلی مرتبہ سوات اور چترال کے دریاؤں میں چھوڑ دیا تھا بعد ازاں 1960 کی دہائی میں حکومت پاکستان کی کوششوں سے ہیچریز قائم کر کے اس کی مصنوعی افزائش نسل کرتے ہوئے ٹراؤٹ مچھلی کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔ ٹراؤٹ مچھلی کی محتلف اقسام ہیں اور شمالی علاقوں میں پائے جانے والے فش فارم میں 90 فیصد ریمبو ٹراؤٹ مچھلی کی ہے۔ اس مچھلی کی خصوصیات میں تیز نشوونما، تبدیلی درجہِ حرارت کی برداشت بھی شامل ہیں۔ شمالی علاقوں میں قائم ہیچریز کو سیلاب سے اکثر وبیشتر نقصان پہنچتا ہے لیکن نجی اور سرکاری سطح پر ماہی پروری کے شعبے کے فروغ کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ ٹراوٹ مچھلی کی افزائش کے حوالے سے محکمہ ماہی پروری خیبر پختونخوا کا کردار قابل زکر ہے۔ محکمہ ہذا کے مختلف اقدامات کی بدولت نجی اور سرکاری شعبے میں ماہی پروری کی پیداوار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اگر سرکاری اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے شمالی علاقہ جات میں ٹراؤٹ مچھلی کی پیداوار کا گراف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔اس حوالے سے محکمے نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت مختلف منصوبے شروع کیے ہیں جس کے حوصلہ افزانتائج سامنے آرہے ہیں۔ محکمہ ماہی پروری خیبر پختونخواہ سے جب ان کے مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے مختلف مجوزہ منصوبوں کا ذکر کیا جن میں مچھلی کی بروقت ترسیل کیلئے کولڈ سٹوریج ، فش پروسیسنگ یونٹ اور ، فش ریسرچ سینٹر کے قیام کے علاوہ مچھلیوں کی نئی اقسام کو متعارف کرانا ماہی پروری کے حوالے سے قانون سازی اور مچھلی کی خوراک کے لیے ضلع سوات میں ایک پلانٹ کا قیام کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ ماہی پروری کی صنعت کو فروغ دینے سے نہ صرف سرکاری سطح پر بلکہ نجی شعبے میں بھی روزگار کے وافر مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی غذائی ضروریات کے حصول میں بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

http://www.dailyaeen.com.pk/uploads/newspaper/Newspaper_peshawar_editorial4_2019-04-16_4.JPG

احتلاف رائے اور جمہوریت

 اظہارِ  رائے کی آزادی جسے انگریزی میں فریڈم آف  سپیچ اینڈ ایکسپریشن کہا جاتاہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا سادہ سامطلب بولنے کی آزادی ہے، اس میں لکھنے کی آزادی بھی شامل ہے۔کسی بھی جمہوری معاشرے میں شہریوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے. اسی اظہار رائے کی آزادی سے ہمیں اختلاف رائے کا پتہ چلتا ہے اور اجتماعی طور آپس میں اختلاف رائے کا پایا جانا کسی بھی جمہوری معاشرے کی ترقی اور نمو میں اہم کردار ادا کرتا ہے. جب کسی بھی موضوع پر محتلف رائے سامنے آتی  ہیں، تو اس سے ہمیں اس زیرِ بحث موضوع کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب ایک موضوع یا مسئلے پر ایک سے زیادہ لوگ اپنی اپنی رائے پیش کرتے ہیں تو دراصل وہ تمام لوگ اپنی فہم و فراست اور تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اس مسئلے کے پائیدار حل یا کسی منصوبے کی بہتری میں اپنے حصے کی شمع روشن کر رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ ایسی سینکڑوں مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں پر عظیم لوگوں کے درمیان بھی مختلف امور پر اختلاف رائے پایا جاتا تھا جس کا مقصد کسی بھی معاملے پر مختلف پہلوؤں سے غور کر کے اس کی خامیوں کو کم سے کم کرنا تھا.

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی صحت مند جمہوری معاشرے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور اسی امر کے پیش نظر اسمبلیوں میں حزب اختلاف کو ایک بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے. پاکستان کی موجودہ سیاست میں یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ ناصرف پارلیمنٹ بلکہ سیاسی پارٹیوں کے اکابرین میں بھی مختلف امور پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔  سیاست دان اس اختلاف رائے کے رکھنے کے باوجود بھی ایک چھتری تلے سیاسی عمل میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں.

حضرت مفتی شفیع رحمة اللّہ علیہ اختلاف رائے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اہل عقل بصیرت پر مخفی نہیں کہ دینی و دنیوی دونوں قسم کے معاملات میں بہت سے مسائل ایسے آتے ہیں جن میں آراء مختلف ہو سکتی ہیں ان میں اختلاف عین عقل و دیانت کے مطابق ہے. وہ مزید بتاتے ہیں کہ ان میں اتفاق دو صورتوں میں ہو سکتا ہے ایک تو یہ کہ اس مجمع میں کوئی اہل بصیرت و اہل رائے نہ ہو یا پھر جان بوجھ کر اپنے ضمیر اور رائے کے خلاف دوسرے کی بات سے اتفاق کرے.

ہمارے وطن عزیز میں کچھ لوگوں کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ معمولی اختلاف کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں جیسے ملک میں کوئی بہت بڑا کہرام مچ گیا ہو. اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بعض اوقات اختلافات اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں جس سے بڑے بڑے نقصانات کا اندیشہ ہوتا ہے مگر کسی ایک مسئلے پر اختلاف رائے کو اتنی ہوا دینا اور لوگوں میں ایک منفی تاثر پیدا کرنا کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے. حال ہی میں کچھ امور پر ایسے واقعات جن کا تعلق اہم اداروں سے متعلق قانون سازی سے تھا، بہت زیادہ  واویلا کیا گیا۔  یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلاف رائے  کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا اور ایک غیر یقینی کی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ ایک غیر ضروری واویلا تھا. میری ذاتی رائے میں اس طرح اختلاف رائے پر غیر ضروری تبصروں اور واویلا سے اجتناب کرنا چاہیے اور  حکومت، پارٹیوں، گروپوں وغیرہ کے درمیان موجود اختلاف رائے کو مثبت انداز میں دیکھتے ہوئے اپنی زبان اور قلم کو ملک اور قوم کی بہتری کے لیے مثبت انداز میں استعمال کرنا چاہیے۔ غیر ضروری اختلاف رائے رکھنے والوں کیلئے اعجاز رحمانی کی زبان  میں اتنا ہی کہوں گا

اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے
مگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے
اسے تو اپنی بھی صورت نظر نہیں آتی
وہ اپنے شیشۂ دل کی تو گرد صاف کرے!

https://www.mukaalma.com/90815/



منگل, ستمبر 10, 2019

اسلام کا سرمایہ حیات حسینیت


تو یہیں ہار گیا ہے مرے بزدل دشمن​

مجھ سے تنہا کے مقابل تیرا لشکر نکلا​

واقعہ کربلا کی تاریخ بتاتی ہے کہ وتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ جب یزید نے حق پرستوں کے ایک چھوٹے سے قافلے کے مقابل اپنا بڑا لشکر بھیجا مگر پھر بھی ایسی شکست سے دو چار ہوا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ آج دنیا کے ہر ایک کونے میں حسین کے چاہنے والے تو ہیں مگر یزید کا نام لینے والا کوئی نہیں ہے۔ شاید یزید کو پتہ نہیں تھا کہ جیسے جیسے انسان بیدار ہو گا وہ بے ساختہ پکارے گا حسین ہمارے ہیں بقول جوش ملیح آبادی
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسین
سید الشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہمیں کئی پیغام دیتی ہے۔  ایمان والا اپنے خون کے آخری قطرہ تک حق پر ڈٹے رہتے ہیں اور اور اپنا ضمیر نہیں بیچت اور نہ باطل کی قوت سے مرعوب ہوتے ہیں۔ جھوٹ کا ساتھ نہیں دیتے، ظالم کے آگے سرنگوں نہیں ہوتے دوسری بات یہ کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے وفادار ساتھیوں نے  یزید کی جن خرابیوں کے باعث اس کی مخالفت کی تھی اس کا مقصد انسانیت اور دین کی سربلندی تھی۔
حق کے لیے جاں دینے کی جو رسم چلی ہے
اس رسم کا بانی ہی حسینؑ ابنِ علیؑ ہے
(سعید اقبال سعدی)
آج بھی بہت سےلوگ حق سے نفرت کرتے ہیں اور ظالم سے وفاداری،  آج بھی لوگ حسینیت کے مقصد سے دور ہیں مگر یزیدیت کے بہت قریب ہیں۔ حضرت امام حسین رض کے کردار میں یہ  پیغام بھی ملتا ہے کہ ظاہری قوت کے آگے بسا اوقات حق پرست لوگ ظاہری طور پر مات تو کھا جاتے ہیں مگر جو حق ہے وہ سچائی ہے وہ کبھی ماند نہیں پڑتی مات نہیں کھاتی اور وہ ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے۔ یہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آج بھی اسلام کا سرمایہ حیات یزیدیت نہیں بلکہ حسینیت
ہے۔ آج حسین کے نام پہ شہر آباد ہیں لیکن یزید کی قبر بھی کسی کو نہیں معلوم، آج بھی حسین کی شان میں قصیدے ہیں مگر یزید پر لعنت کے سوا کچھ بھی نہیں، آج بھی حسین ہے اور حسین ہے۔ بقول اقبال۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیلؑ
(اقبال)
ساجد محمود خان۔ 

جمعہ, ستمبر 06, 2019

.....سول سرونٹ ترمیمی بل 2019، بات ہمارے بچوں اور ملک کے مستقبل کی ہے... (https://www.tnn.com.pk/urdu/blog/97500/) ساجد محمود خان



 رواں برس خیبر پختونخوا اسمبلی نے صوبائی کابینہ کی جانب سے پیش کردہ سول سرونٹ ترمیمی بل 2019 کی منظوری دے تھی جس بل کی منظوری سے سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت میں 3 سال کا اضافہ ہوا ہے اور ریٹائرمنٹ کے لیے عمر کی حد 60 سال کے بجائے اب 63 سال ہوگئی ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے اس بل پر شدید تنقید کی گئی اور بہت سے اعتراضات بھی لگائے گئے، اپوزیشن نے بل کیخلاف احتجاجاً واک آؤٹ بھی کیا تاہم ایوان نے اپوزیشن کی غیر موجودگی میں ہی سول سرونٹس ترمیمی بل 2019 کی منظوری دے دی۔
آج تک حکومت کی جانب سے اس ترمیمی بل پر اٹھنے والے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے گئے اور نہ ہی اس اقدام کے دور رس اثرات سے عوام کو  اچھی طرح سے آگاہ کیا گیا۔ اس اقدام کے حوالے سے بہت سی نکات کی وضاحت بھی بہت ضروری ہے۔ مثلاً سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت 63 سال کرنے سے واجبات کی ادائیگی ختم نہیں بلکہ مؤخر ہوگی تو کیا 3 سال کے بعد ان کی پنشن ادائیگی کا کوئی خاص منصوبہ تیار کیا گیا ہے؟
اس ترمیمی بل کی منظوری کے بعد صوبہ بھر کے ہزاروں نوجوان اس حکومتی پالیسی کا خمیازہ بھگتیں گے جو اس وقت سرکاری نوکری کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہزاروں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع بند ہونے کی صورت میں حکومت کے پاس نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا کوئی ایسا متبادل منصوبہ ہونا بہت ضروری ہے جس سے نوجوانوں میں مایوسی نہ پھیلے۔
اگر دیکھا جائے تو یہ ترمیمی بل برسرِ اقتدار پارٹی کے ان دعووں کے منافی ہے جن میں سول سروسز اصلاحات کی بات کی گئی تھی۔ ان اصلاحات میں ایک اہم نکتہ سول سرونٹ کے لئے عمر کی حد کو 60 سال سے کم کرنے کی بات کی گئی تھی۔
محکمہ تعلیم خیبرپختونخوا حکومت کا سب سےبڑا ادارہ ہے جس کے ملازمین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اس ادارے کا کام ہمارے بچوں کو تعلیم دینا اور ان کو مستقل کے چیلینجز سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ہے۔ تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے اسی ادارے میں ملازمت کرنے والے ہزاروں پرانے اساتذہ کو ریٹائر کرنے اور ان کی جگہ نئے اور اعلی تعلیم تافتہ نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی سر توڑ کوشش کی تھی۔ اس وقت حکومت نے نئے اور اعلٰی تعلیم یافتہ نوجوان استائذہ بھرتی تو کر لیے مگر ان پرانے اور کام نہ کرنے والےاساتذہ کو نکالنے میں نا کام ہو گئی۔
بلا شبہ نئے اور قابل اساتذہ کو شفاف طریقے سے بھرتی کرنے کے بعد صوبے کے سکولوں میں بہت بہتری آئی ہے اور معیار تعلیم بھی بلند ہوا ہے مگر سول سرونٹ کے لئے عمر کی حد کو 60 سال سے بڑھانے سے ان اساتذہ کو مذید 3 سال کی نوکری کرنے کا موقع مل جائے گا جن سے جان چھڑانے کے لیے خیبر پختونحواہ کی پچھلی حکومت نے سر توڑ کوشش کی تھی۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ محکمہ تعلیم میں نئے آنے والے استائذہ کی کارکردگی اور معیار پرانے اساتذہ کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی طرف سے پیش کردہ سول سرونٹ ترمیمی بل 2019 میں عمر کی حد بڑھانے کی یہ تجویز تمام اداروں کے بجائے چند اداروں کےلیے ہوتی تو شائد محکمہ تعلیم میں موجود ان پرانے اساتذہ کی اکثریت سے ہمارے بچوں کی جان اسانی سے چھوٹ جاتی مگر عمر کی حد بڑھانے سے ایسے بہت سے کام چور استائذہ کو ہمارے بچوں کے مستقبل سے کھیلنے کے لیے مزید 3 سال کی مہلت مل جائے گی۔ بات صرف اعدادوشمار اور پنشن کے پیسوں کی بچت کی نہیں بلکہ ہمارے بچوں اور ہمارے ملک کے مستقبل کی ہے۔

جمعہ, اگست 30, 2019

مت قتل کرو آوازوں کو



میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازؔ​
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا​

احمد فرازؔ​

جی ہاں صحرائے محبت کے  اس مسافر کا سفر 25 اگست 2008 کو اپنے احتتام پر پہنچا۔  احمد فراز  12 جنوری، 1931ء کو  خیبر پختونخوا کے شہرکوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ ' تھا۔  بلاشبہ احمد فراز ایک عہد کا نام ہے جسے چند سطور، لفظوں یا کتابوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے مگر ان کے حوالے سے یہ بات واضح کرتا چلوں کہ شاید وہ واحد شاعر ہیں جو اپنی زندگی میں ہی رومانوی اور انقلابی دونوں اقسام کی شاعری میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ میری رائے میں فراز کی شاعری ایک ایسا آئینہ ہے  جس میں بیک وقت ہمیں ہماری ذات کا رومان اور ہمارے معاشرے  کی حقیقی تصویر نظر آتی ہے۔ آج احمد فراز کی ایک خوبصورت نظم آپ کی سماعتوں کی نظر کرتا ہوں۔ یہ نظم ہر اس آواز کیلئے جسے ظالم دبانے کی کوشش کرتا۔ یہ آواز کبھی جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کی ہوتی تو کبھی ان معصوم بچوں کی جن کو زیادتی و درندگی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا جاتا ہے،  اس آواز کے لئے آواز بلند کرنا ہم سب پر فرض ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مت قتل کرو آوازوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم اپنے عقیدوں کے نیزے
ہر دل میں اتارے جاتے ہو

ہم لوگ محبت والے ہیں
تم خنجر کیوں لہراتے ہو

اس شہر میں نغمے بہنے دو
بستی میں ہمیں بھی رہنے دو

ہم پالنہار ہیں پھولوں کے
ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے ہو
ہم پیار سکھانے والے ہیں

اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے
جب حرف یہاں مر جائے گا
جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی
جب شعر سفر کر جائے گا

جب قتل ہوا سر سازوں کا
جب کال پڑا آوازوں کا

جب شہر کھنڈر بن جائے گا
پھر کس پہ سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں

جب دیکھو گے ڈر جاؤ گے​

(احمد فراز)​
ساجد محمود خان

بدھ, اگست 28, 2019

مفرد اعداد کے درمیان فرق

 

مفرد اعداد کیا ہیں: مفرد اعداد وہ اعداد یا ہندسے ہیں جو صرف ایک اور اپنے آپ پر پورے پورے تقسیم ہوتے ہیں۔ مطلب، جب ان کو کسی بھی نمبر سے تقسیم کیا جائے تو باقی کچھ نہ کچھ بچے گا۔ صرف ایک اور خود سے تقسیم ہونے پر باقی صفر بچتا ہے۔

چند اور حقائق: مفرد اعداد کی تعداد لامتناہی ہے اور ان میں بظاہر کوئی ترتیب نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا فارمولا ہے جس کے ذریعے مفرد اعداد کو معلوم کیا جائے۔ مفرد اعداد کو معلوم کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی عدد کو لے کر یہ معلوم کیا جائے کہ یہ صرف خود پر اور ایک پر تقسیم ہوتی ہے۔

میرا اس سے تعلق: مجھے مفرد اعداد بہت پسند ہیں اور میں اکثر ان سے بچوں کی طرح کھیلتا رہتا ہوں اور ان میں کوئی نہ کوئی ترتیب معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ میرے پاس دو کروڑ دس لاکھ مفرد اعداد ہیں جو میں نے خود معلوم کیئے ہیں۔ میرا ارادہ ہے کہ ان کی تعداد میں اضافہ کروں۔

مفرد اعداد کو انٹرنیٹ سے بھی ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے لیکن میری ان سے تسلی نہیں ہوتی۔ میں جاہتا ہوں کی جن مفرد اعداد سے میں کھیلوں، وہ میری طرف سے ثابت شدہ ہوں کہ یہ مفرد اعداد ہیں۔  

اس مضمون کا مقصد: میں نے سوچا کہ مفرد اعداد کے درمیان فرق کی مقدار کیا ہوگی اور کیا ان میں کوئی ترتیب وغیرہ ہوگی۔ میں نے اپنے ساتھ موجود دوکروڑ مفرد اعداد میں فرق معلوم کیا اور اس کے نتائج کچھ ایسے ہیں:

Num Diff Num Diff Num Diff Num Diff Num Diff
101 2 151 6 199 12 263 6 317 14
103 4 157 6 211 12 269 2 331 6
107 2 163 4 223 4 271 6 337 10
109 4 167 6 227 2 277 4 347 2
113 14 173 6 229 4 281 2 349 4
127 4 179 2 233 6 283 10 353 6
131 6 181 10 239 2 293 14 359 8
137 2 191 2 241 10 307 4 367 6
139 10 193 4 251 6 311 2 373 6
149 2 197 2 257 6 313 4 379 4

اوپر چند مفرد اعداد اور ان کے ردمیان فرق بتائے گئے ہیں۔ ہر عدد کے سامنے اس عدد اور اس سے اگلے عدد کے درمیان فرق لکھا گیا ہے۔

نیچھے ان فرقوں میں کا ایک جائزہ دیا گیا ہے۔

Difference Count Percentage Difference Count Percentage
6 2,624,351 12.4969 26 452,574 2.1551
12 1,893,381 9.0161 42 364,206 1.7343
10 1,489,403 7.0924 34 283,775 1.3513
4 1,486,021 7.0763 32 270,425 1.2877
2 1,485,320 7.0730 40 250,083 1.1909
18 1,395,017 6.6429 48 216,101 1.0291
8 1,153,248 5.4917 38 212,703 1.0129
14 1,039,320 4.9491 54 150,757 0.7179
24 964,987 4.5952 44 147,634 0.7030
30 868,226 4.1344 60 132,865 0.6327
16 773,172 3.6818 46 126,080 0.6004
20 749,688 3.5699 50 121,797 0.5800
22 646,979 3.0809 52 90,747 0.4321
28 492,397 2.3447 56 76,777 0.3656
36 458,374 2.1827 66 76,068 0.3622

اوپر ٹیبل میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چھ کا فرق سب سے زیادہ آیا ہے، بارہ فیصد سے زیادہ۔ اس کے بعد بارہ کا فرق اور اس کے بعد دس کا فرق۔ ایسے مفرد اعداد کے درمیان دو کا فرق سات فیصد آیا ہے۔

 

DA NAN SAWAL-40

  پروگرام : دا نن سوال / آج کا سوال ( نشر مکرر) موضوع : یوم پاکستان (پشتو زبان میں ) مہمان: پرنسپل / لیث محمد - ( محکمہ ابتدائی و ثانوی ...