This blog is dedicated for promotion of peace through ideas.This page will promote peace with all available resources in hand. Any one can contribute in this blog through writings, images, audios and videos
ہفتہ, مارچ 28, 2020
پیر, مارچ 02, 2020
۔پنجاب کا مقدمہ سب کےلئے۔http://www.dailypaighamat.com/2.html
سب سے پہلے تو میں معزرت خواہ ہوں کہ یہ تحریر مجھے 21 فروری یعنی عالمی یوم مادری زبان کے دن تحریر اور شائع کرنی چاہیے تھی مگر ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں۔ ایک اور اہم بات یہ کہ میں اپنی کم علمی اور خاص طور پر علم لسانیات پر کمزور گرفت کی وجہ سے ایسے موضوعات پر لکھنے سے پرہیز کرتا ہوں جس سے میری کسی مثبت تحریر یا پیغام کو کسی بھی حوالے سے متنازع تحریر یا پیغام کا درجہ حاصل ہو جائے۔ ہم اکثر ان معاملات پر بہت زیادہ توجہ نہیں دیتے جو ہم پر بلا واسطہ طور پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے اثرات بہت عرصہ بعد رونما ہونے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سانحہ بنگال کے عوامل میں زبان ایک اہم مسئلہ تھا جس نے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے لوگوں میں دوریاں پیدا کی تھیں۔
جب کبھی بھی علاقائی زبانوں بالخصوص پنجابی زبان سے وفا کا تذکرہ ہو گا تو محمد حنیف رامے کی کتاب ( پنچاب کا مقدمہ ) کا پیش لفظ ہمیں اپنی مادری زبانوں خاص کر پنجابی زبان سے پنجاب کے باشندوں کی بے وفائی اور چشم پوشی کی یاد ضرور دلاتا رہے گا۔ محمد حنیف رامے صاحب 1930ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ سیاستدان، دانشور، خطاط ، مصور، صحافی اور ایک ہمہ گیر شخصیت کی حامل انسان تھے۔ حنیف رامے صاحب کی مشہور کتاب ’’ پنجاب کا مقدمہ ‘‘ ہے جبکہ ان کی دیگر تصانیف میں اسلام کی روحانی قدریں، موت نہیں زندگی ، باز آؤ اور زندہ رہو (اداریوں کا مجموعہ) ، دُبِ اکبر اور نظموں کا مجموعہ دن کا پھول کے نام شامل ہیں۔ آپ چوہدری تھے مگر اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح اپنے نام کے ساتھ چوہدری کے بجائے رامے کا لاحقہ اختیار کیا اور پھر یہی ان کا تخلص بھی ٹھہرا تھا۔ محمد حنیف رامے مرحوم نے ”پنجاب کا مقدمہ“ کے موضوع پر اپنی کتاب اردو میں لکھی اور اس کی توجیح یہ پیش کی کہ انہیں یہ کتاب اردو میں اس لئے بھی لکھنا پڑی کیونکہ پڑھے لکھے پنجابیوں نے پنجابی زبان کو چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے پیش لفظ میں مزید لکھا کہ وہ اس دور کے کروڑوں پنجابیوں کو نہ صرف پنجاب کی عظمت کیلئے بلکے پورے پاکستان کے استحکام اور یکجہتی کیلئے بھی جگا رہے ہیں۔ ان کی کتاب میں انھوں نے پنجاب کے لوگوں کو مضبوط پاکستان کی خاطر پنجابیت سے جڑے رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ انھوں نے مضبوط پاکستان اور پنجابیت کو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ”میرا ایمان ہے کہ پنجاب نے پنجابیت اختیار نہ کی تو وہ پاکستان کو بھی لے ڈوبے گا"۔ میری ذاتی رائے میں جب تک ہمارے وطن عزیز میں علاقائی زبانیں اور تقافت فروغ نہیں پاتا تب تک پاکستان مستحکم اور مضبوط نہیں ہو سکتا ہے۔ حنیف رامے صاحب اہل پنجاب کو ان کی خاموشی پہ جھنجھوڑتے ہوئے اہل پنجاب سے یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر وہ پاکستان کی بقإ چاہتے ہیں تو نہ صرف اپنی پنجابیت اختیار کرے بلکہ پوری عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر صوبائی خودمختاری کی جنگ بھی لڑے۔
جو بات اور نقطہ میں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی سے اردو زبان اور استحکام پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ اس سے سے اردو زبان اور ملکی اتحاد کو مزید استحکام ملے گا ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہر علاقے کی اپنی ایک محصوص ثقافت ہوتی ہے جو اس علاقے کی زبان سے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ بہت سے الفاظ اور محاورے اس محصوص ثقافت کی بدولت وجود میں آتے ہیں۔ ان ہی نئے وجود میں آنے والے الفاظ میں سے بہت سے الفاظ بعد میں دوسری زبانوں میں منتقل ہو جاتے ہیں ہے۔ اس طرح ایک مخصوص ثقافت کا اثر دوسری ثقافت اور اس کی زبان پر پڑتا ہے۔ اگر یہی الفاظ کے تبادلے رک جائیں تو پھر زبان کمزور یا پھر مردہ ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں بہت سی علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں جن کے الفاظ آپ کو بہت سی دوسری زبانوں خاص طور پر اردو زبان میں ضرور نظر آئیں گے۔ پاکستان میں بولی جانے والی علاقائی زبانوں میں سندھی، پنجابی، پشتو ، بلوچی، کشمیری، سرائیکی، ہندکو، براہوی، گجراتی اور بعض دوسری علاقائی زبانیں بھی شامل ہیں۔ علاقائی زبانوں کے سوچ افکار نہ صرف قومی زبان کے دائرہ کار کو وسعت دینے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں بلکہ علاقے کے افراد کو قومی زبان سے قریب لانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمیں علاقائی زبانوں کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا اور ان کی ترقی و ترویج کے لئے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے ہونگے ورنہ تو ایک پنجاب کے مقدمے کے بجائے ہمیں بہت سے علاقائی زبانوں کے مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا۔ اخر میں حنیف رامے مرحوم کی بات کو کچھ اضافے کے ساتھ مزید آگے بڑھاتے ہوئے اتنا ضرور کہوں گا کہ مضبوط پاکستان اور علاقائی زبانوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور اگر پاکستانیوں نے اپنی علاقائی زبانوں سے محبت اختیار نہ کی تو وہ پاکستان کی یکجہتی کو بھی لے ڈوبیں گے۔
جمعرات, فروری 20, 2020
(ماہی پروری اور روزگار کے مواقع۔ اشاعت روزنامہ آئین پشاور۔ 16 اپریل 2019)
احتلاف رائے اور جمہوریت
اظہارِ رائے کی آزادی جسے انگریزی میں فریڈم آف سپیچ اینڈ ایکسپریشن کہا جاتاہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا سادہ سامطلب بولنے کی آزادی ہے، اس میں لکھنے کی آزادی بھی شامل ہے۔کسی بھی جمہوری معاشرے میں شہریوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے. اسی اظہار رائے کی آزادی سے ہمیں اختلاف رائے کا پتہ چلتا ہے اور اجتماعی طور آپس میں اختلاف رائے کا پایا جانا کسی بھی جمہوری معاشرے کی ترقی اور نمو میں اہم کردار ادا کرتا ہے. جب کسی بھی موضوع پر محتلف رائے سامنے آتی ہیں، تو اس سے ہمیں اس زیرِ بحث موضوع کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب ایک موضوع یا مسئلے پر ایک سے زیادہ لوگ اپنی اپنی رائے پیش کرتے ہیں تو دراصل وہ تمام لوگ اپنی فہم و فراست اور تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اس مسئلے کے پائیدار حل یا کسی منصوبے کی بہتری میں اپنے حصے کی شمع روشن کر رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ ایسی سینکڑوں مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں پر عظیم لوگوں کے درمیان بھی مختلف امور پر اختلاف رائے پایا جاتا تھا جس کا مقصد کسی بھی معاملے پر مختلف پہلوؤں سے غور کر کے اس کی خامیوں کو کم سے کم کرنا تھا.
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی بھی صحت مند جمہوری معاشرے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور اسی امر کے پیش نظر اسمبلیوں میں حزب اختلاف کو ایک بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے. پاکستان کی موجودہ سیاست میں یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ ناصرف پارلیمنٹ بلکہ سیاسی پارٹیوں کے اکابرین میں بھی مختلف امور پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ سیاست دان اس اختلاف رائے کے رکھنے کے باوجود بھی ایک چھتری تلے سیاسی عمل میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں.
حضرت مفتی شفیع رحمة اللّہ علیہ اختلاف رائے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اہل عقل بصیرت پر مخفی نہیں کہ دینی و دنیوی دونوں قسم کے معاملات میں بہت سے مسائل ایسے آتے ہیں جن میں آراء مختلف ہو سکتی ہیں ان میں اختلاف عین عقل و دیانت کے مطابق ہے. وہ مزید بتاتے ہیں کہ ان میں اتفاق دو صورتوں میں ہو سکتا ہے ایک تو یہ کہ اس مجمع میں کوئی اہل بصیرت و اہل رائے نہ ہو یا پھر جان بوجھ کر اپنے ضمیر اور رائے کے خلاف دوسرے کی بات سے اتفاق کرے.
ہمارے وطن عزیز میں کچھ لوگوں کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ معمولی اختلاف کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں جیسے ملک میں کوئی بہت بڑا کہرام مچ گیا ہو. اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بعض اوقات اختلافات اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں جس سے بڑے بڑے نقصانات کا اندیشہ ہوتا ہے مگر کسی ایک مسئلے پر اختلاف رائے کو اتنی ہوا دینا اور لوگوں میں ایک منفی تاثر پیدا کرنا کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے. حال ہی میں کچھ امور پر ایسے واقعات جن کا تعلق اہم اداروں سے متعلق قانون سازی سے تھا، بہت زیادہ واویلا کیا گیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلاف رائے کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا اور ایک غیر یقینی کی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ ایک غیر ضروری واویلا تھا. میری ذاتی رائے میں اس طرح اختلاف رائے پر غیر ضروری تبصروں اور واویلا سے اجتناب کرنا چاہیے اور حکومت، پارٹیوں، گروپوں وغیرہ کے درمیان موجود اختلاف رائے کو مثبت انداز میں دیکھتے ہوئے اپنی زبان اور قلم کو ملک اور قوم کی بہتری کے لیے مثبت انداز میں استعمال کرنا چاہیے۔ غیر ضروری اختلاف رائے رکھنے والوں کیلئے اعجاز رحمانی کی زبان میں اتنا ہی کہوں گا
اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کرے
مگر وجود کا میرے بھی اعتراف کرے
اسے تو اپنی بھی صورت نظر نہیں آتی
وہ اپنے شیشۂ دل کی تو گرد صاف کرے!
https://www.mukaalma.com/90815/
منگل, ستمبر 10, 2019
اسلام کا سرمایہ حیات حسینیت
جمعہ, ستمبر 06, 2019
.....سول سرونٹ ترمیمی بل 2019، بات ہمارے بچوں اور ملک کے مستقبل کی ہے... (https://www.tnn.com.pk/urdu/blog/97500/) ساجد محمود خان
جمعہ, اگست 30, 2019
مت قتل کرو آوازوں کو
بدھ, اگست 28, 2019
مفرد اعداد کے درمیان فرق
مفرد اعداد کیا ہیں: مفرد اعداد وہ اعداد یا ہندسے ہیں جو صرف ایک اور اپنے آپ پر پورے پورے تقسیم ہوتے ہیں۔ مطلب، جب ان کو کسی بھی نمبر سے تقسیم کیا جائے تو باقی کچھ نہ کچھ بچے گا۔ صرف ایک اور خود سے تقسیم ہونے پر باقی صفر بچتا ہے۔
چند اور حقائق: مفرد اعداد کی تعداد لامتناہی ہے اور ان میں بظاہر کوئی ترتیب نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا فارمولا ہے جس کے ذریعے مفرد اعداد کو معلوم کیا جائے۔ مفرد اعداد کو معلوم کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی عدد کو لے کر یہ معلوم کیا جائے کہ یہ صرف خود پر اور ایک پر تقسیم ہوتی ہے۔
میرا اس سے تعلق: مجھے مفرد اعداد بہت پسند ہیں اور میں اکثر ان سے بچوں کی طرح کھیلتا رہتا ہوں اور ان میں کوئی نہ کوئی ترتیب معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ میرے پاس دو کروڑ دس لاکھ مفرد اعداد ہیں جو میں نے خود معلوم کیئے ہیں۔ میرا ارادہ ہے کہ ان کی تعداد میں اضافہ کروں۔
مفرد اعداد کو انٹرنیٹ سے بھی ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے لیکن میری ان سے تسلی نہیں ہوتی۔ میں جاہتا ہوں کی جن مفرد اعداد سے میں کھیلوں، وہ میری طرف سے ثابت شدہ ہوں کہ یہ مفرد اعداد ہیں۔
اس مضمون کا مقصد: میں نے سوچا کہ مفرد اعداد کے درمیان فرق کی مقدار کیا ہوگی اور کیا ان میں کوئی ترتیب وغیرہ ہوگی۔ میں نے اپنے ساتھ موجود دوکروڑ مفرد اعداد میں فرق معلوم کیا اور اس کے نتائج کچھ ایسے ہیں:
Num | Diff | Num | Diff | Num | Diff | Num | Diff | Num | Diff |
101 | 2 | 151 | 6 | 199 | 12 | 263 | 6 | 317 | 14 |
103 | 4 | 157 | 6 | 211 | 12 | 269 | 2 | 331 | 6 |
107 | 2 | 163 | 4 | 223 | 4 | 271 | 6 | 337 | 10 |
109 | 4 | 167 | 6 | 227 | 2 | 277 | 4 | 347 | 2 |
113 | 14 | 173 | 6 | 229 | 4 | 281 | 2 | 349 | 4 |
127 | 4 | 179 | 2 | 233 | 6 | 283 | 10 | 353 | 6 |
131 | 6 | 181 | 10 | 239 | 2 | 293 | 14 | 359 | 8 |
137 | 2 | 191 | 2 | 241 | 10 | 307 | 4 | 367 | 6 |
139 | 10 | 193 | 4 | 251 | 6 | 311 | 2 | 373 | 6 |
149 | 2 | 197 | 2 | 257 | 6 | 313 | 4 | 379 | 4 |
اوپر چند مفرد اعداد اور ان کے ردمیان فرق بتائے گئے ہیں۔ ہر عدد کے سامنے اس عدد اور اس سے اگلے عدد کے درمیان فرق لکھا گیا ہے۔
نیچھے ان فرقوں میں کا ایک جائزہ دیا گیا ہے۔
Difference | Count | Percentage | Difference | Count | Percentage |
6 | 2,624,351 | 12.4969 | 26 | 452,574 | 2.1551 |
12 | 1,893,381 | 9.0161 | 42 | 364,206 | 1.7343 |
10 | 1,489,403 | 7.0924 | 34 | 283,775 | 1.3513 |
4 | 1,486,021 | 7.0763 | 32 | 270,425 | 1.2877 |
2 | 1,485,320 | 7.0730 | 40 | 250,083 | 1.1909 |
18 | 1,395,017 | 6.6429 | 48 | 216,101 | 1.0291 |
8 | 1,153,248 | 5.4917 | 38 | 212,703 | 1.0129 |
14 | 1,039,320 | 4.9491 | 54 | 150,757 | 0.7179 |
24 | 964,987 | 4.5952 | 44 | 147,634 | 0.7030 |
30 | 868,226 | 4.1344 | 60 | 132,865 | 0.6327 |
16 | 773,172 | 3.6818 | 46 | 126,080 | 0.6004 |
20 | 749,688 | 3.5699 | 50 | 121,797 | 0.5800 |
22 | 646,979 | 3.0809 | 52 | 90,747 | 0.4321 |
28 | 492,397 | 2.3447 | 56 | 76,777 | 0.3656 |
36 | 458,374 | 2.1827 | 66 | 76,068 | 0.3622 |
اوپر ٹیبل میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چھ کا فرق سب سے زیادہ آیا ہے، بارہ فیصد سے زیادہ۔ اس کے بعد بارہ کا فرق اور اس کے بعد دس کا فرق۔ ایسے مفرد اعداد کے درمیان دو کا فرق سات فیصد آیا ہے۔
بدھ, اگست 21, 2019
مودی سرکار کے احمقانہ اقدام سے کشمیر اک بار پھر فلیش پوائنٹ بن گیا۔ ۔۔۔اشاعت : ٹی این این نیوز۔ https://www.tnn.com.pk/urdu/blog/96643/
بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 جموں و کشمیر کو دیگر انڈین. ریاستوں کے مقابلے میں قدرے زیادہ خودمختاری دیتا تھا اور یہ وہی شق تھی جس کی بنیاد پر جموں و کشمیر کے مہاراجہ نے ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھ کیا تھا۔ حال ہی میں جب بھارت حکومت نے آئین میں صدارتی حکم نامے کے تحت جموں و کشمیر کی خودمختاری سلب کرنے کی کوشش کی تو بہت سے حلقوں میں اس اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔ بہت سے ماہرین نے اسے مسئلہ کشمیر جو بہت عرصے سے اقوام متحدہ کے سرد خانےمیں پڑا ہوا تھا کے حل کے لیے شدید دھچکا قرار دیا مگر میری ناقص رائے اور فہم کے مطابق یہ قدم بھارت میں برسرِ اقتدار پارٹی کی طرف سے ایک نہایت احمقانہ قدم تھا جس سےجموں و کشمیر پر بھارت کی گرفت کمزور اور مسئلہ کشمیر دوبارہ سے عالمی سطح پر اجاگر ہو کر عالمی سطح پر خبروں کی زنیت بن گیا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو اس بھارتی اقدام سے بہلے بھارت اس مسئلے کو عالمی سطح پر پس پشت ڈالنے میں کامیاب ہو گیا تھا، بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے مگر جب عالمی برادری کشمیر میں بھارتی اقدامات کو جب دیکھتی یا سنتی ہے تو وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتی ہے۔
بہت سی عالمی تنظیموں اور خبر رساں اداروں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے بھی بھارتی اقدامات کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے بھارتی صدارتی حکم نامے اور اس کے نتجے میں کیے گئے ظالمانہ اقدامات نے اس مسئلے کو دوبارہ فلیش پوائنٹ بنا دیا اور جیسا کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ 50 سالوں میں یہ پہلی بار ہے کہ مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سب سے اعلیٰ سفارتی فورم پر زیر بحث لایا گیا ہے۔
یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ بھارت کے حالیہ احمقانہ اقدامات ہی کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کئی دہائیوں کے بعد دوبارہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زیر بحث لایا گیا۔ دنیا بھر کے مختلف خبر رساں اداروں نے سلامتی کونسل کے اجلاس کے حوالے سے کوریج کی اور جنوبی ایشیاء کے اس حل طلب مسئلہ کا ذکر بار بار کیا گیا۔
اس موقع پر سلامتی کونسل کے 15 اراکین نے بند کمرے کے اجلاس میں کشمیر کے مسئلے پر بحث کی اور مسئلے کے پُرامن حل پر زور دیتے ہوئے دونوں فریقین پاکستان اور انڈیا کو اپنے مسائل باہمی طور ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔
اگر ہم پچھلی چند دہائیوں کا مطالعہ کریں تو اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو نہ صرف مغربی ممالک بلکہ مسلم امہ کی جانب سے بھی مسلسل نظر انداز کیا گیا جس کی محتلف وجوہات ہیں جن میں سے اقتصادی وجوہات سرفہرست ہیں۔
بعض ماہرین کی نظر میں بھارت کے ساتھ بیشتر ممالک کے اقتصادی روابط ہیں جس کی وجہ سے وہ دبے الفاظ میں مسئلہ کشمیر کے حل کی بات تو کرتے جس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے مگر اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے فورم پر کم ازکم کشمیر کو ایک مسئلہ تو قرار دیا گیا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو بظاہر مسئلہ کشمیر پر سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکلیں گے مگر اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس اجلاس پر دنیا بھر کی نظر لگی ہوئی تھیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس تناؤ سے دنیا کو یہ پیغام بھی واضح ہو رہا ہے کہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ کے خطرات آج بھی مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ساری دنیا کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔
مودی سرکار کے احمقانہ اقدام سے کشمیر اک بار پھر فلیش پوائنٹ بن گیا - https://www.tnn.com.pk/urdu/blog/96643/
جمعہ, اگست 16, 2019
تبدیلی اور منگو کوچوان۔.........۔اشاعت:- ٹی۔این۔این 15 اگست 2019...... https://www.tnn.com.pk/urdu/blog/96359/
DA NAN SAWAL-40
پروگرام : دا نن سوال / آج کا سوال ( نشر مکرر) موضوع : یوم پاکستان (پشتو زبان میں ) مہمان: پرنسپل / لیث محمد - ( محکمہ ابتدائی و ثانوی ...

-
https://www.mukaalma.com/66191 نوبل انعام یافتہ جارج آرویل کی شہرہ آفاق ناول اینیمل فارم (Animal Farm) انصاف اور مساوات...
-
پہلی جنگ عظیم کے وقت برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ لائیڈ جارج، فرانس کے صدر جارج کلیمانسو اور امریکا کے صدر ووڈرو ولسن تھے ان ممالک ...
-
https://www.humsub.com.pk/232724/sajid-mahmood-khan-2/ کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہ...